مصعب بن زبیر رحمہ اللہ نے اپنے صاحب زادے سے فرمایا: ”اے میرے لخت جگر! علم حاصل کرو۔ اگر تمہارے پاس مال ہوا تو یہ علم تمہارے لیے باعثِ زینت اورشانِ افتخار ہے۔ اور اگر تمہارے پاس دنیا کی دولت نہ ہوئی تب بھی یہ علم تمہارے لیے کسی متاع بے بہا سے کم نہیں۔“
دینِ اسلام ہر جہت سے کامل و اکمل ہے۔ اِس کے کمالات و محاسن اور فضائل و مناقب میں سے ایک نمایاں خوبی اور ممتاز وصف ”علم وحی“ ہے۔ قرآن وسنت نے جابجا مختلف مقامات پر حصولِ علم کی ترغیب و تشویق دے کر ، یہ امر واضح کردیا ہے کہ ایک عالم و عارف کبھی بھی کسی جاہل و ناداں کے برابر نہیں ہوسکتا۔ ان کے درمیان کسی مساوات و ہم سری کا تصور ہی نہیں کیا جاسکتا۔ یہ” علم“ ہی ہے جس کی طرف سرورِ دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی نسبت کرتے ہوئے ارشاد فرمایا: ”میں معلم واستاذ بناکر بھیجا گیاہوں۔“ آج بھی جو حضرات تعلیم و تعلّمِ دین سے منسلک اور وابستہ ہیں ، ان کی حیثیت ، مرتبت اور اہمیت مسلم ہے۔ بقول حضرت حکیم الامت رحمہ اللہ: ”تعلیم (دین) کی حالت دوسرے کاموں کے مقابلے میں ایسی ہے، جیسے انجن کا پہیہ کہ اس کے چکر پر تمام گاڑیوں کو حرکت ہوتی ہے۔ اگر اس کی حرکت بند ہوجائے تو تمام گاڑیوں کی حرکت بند ہوجائے؛ مگر اس کی ضرورت کا احساس لوگوں کو نہیں ہوتا۔ درس وتدریس ِ (دین) سب محکموں کی روح ہے ۔خواہ تقریر ہو، خواہ تحریر، خواہ تصنیف سب اسی تعلیم (دین) کی فرع ہیں مگر اس وقت سب سے زیادہ اسی کو بے کار سمجھ رکھاہے۔ عام طور سے لوگوں کی نظر میں علماء کی وقعت کم ہے۔“(تحفة العلماء 69/1)
آج کے مادہ پرست ،ظاہر بیں اور بناوٹ شعار زمانے میں مجموعی طورپر”مدارس دینیہ“ بحمداللہ ایک معلم و مدرس کو اس کا وقار و عزت ویسے ہی فراہم کرتے ہیں، جو اس کے منصب و مقام کا تقاضا ہے۔ مرورِ ایام نے جہاں طلبہٴ علوم دینیہ کو تن آسان ،سہل پسند اور غفلت کا خوگر بنا دیا ہے، وہاں اساتذہ اور مدرسینِ علومِ نبویہ کی ذمہ داریاں اور ان کے بلند رتبہ مقام کے تقاضے بھی پہلے سے کئی گنا بڑھ چکے ہیں۔ سستی ، بے فکری اور عدم توجہی کی اس تاریک و سیاہ فضا میں وہ کون سے ایسے قابل توجہ اسباب و عوامل ہیں، جن کو بر َت کر ایک کامیاب مدرس و معلم اپنے متعلّمین و منتسبین کی صلاحیتوں کو دو آتشہ کرسکتا ہے؟ جن سے استفادہ کرکے وہ اپنے لیے کامیابی و کامرانی کی راہیں ہموار کرسکتا ہے ؟ جن کی بنیاد پر امتِ بیضا کو معتبر رجال کار اور مستند افرادِ دین مہیا کیے جاسکتے ہیں؟ آئیے! ایک اجمالی مگر موٴثر انداز میں ان سوالات کا جواب تلاش کریں․․․․:
۱- وقت کی پابندی:
پابندیِ وقت ہر عقل مند انسان کی خوبی ہے۔ تھوڑے وقت میں زیادہ کام کرنے اور کروانے کا بنیادی اصول مقررہ وقت کا بھرپور اور درست استعمال ہے۔ اپنے وقت کی کا مل حفاظت اور اُسے تول تول کر خرچ کرنا ہی کامیاب تدریس کی جانب پہلا قدم ہے۔اس حوالے سے ذرا سی بے التفاتی و بے توجہی اور تساہل نہ صرف علمی ،عملی اور اخلاقی رویے کے منافی ہے؛ بلکہ زیر تدریس شاگردوں پر بھی اس کے برے اور منفی اثرات پڑسکتے ہیں۔ جو یقینا ان کے بہتر مستقبل کے حوالے سے زہرِ قاتل ہے۔ وقت کا التزام یہ تو اچھی اور قابلِ تحسین عادت ہے؛ البتہ اپنے گھنٹے سے قبل دوسرے استاد کے گھنٹے کا وقت لیا جائے اور نہ ہی مقررہ وقت ختم ہونے کے بعد دوسرے مدرس کے اوقات میں بے جا دخل اندازی کی جائے ۔ متعین ساعتوں میں اپنی بات سمیٹنا اور تکمیل تک پہنچانا اخلاقاً و شرعاً ایک مدرس کی ذمہ داری ہے۔
۲-تفہیم سے قبل تفَہّم:
وقت کو معتدل انداز میں اسی وقت اپنے لیے کارآمد اور مفید بنایا جاسکتا ہے ، جب آپ تعلیم گاہ میں جانے سے پہلے متوقع سبق کو خوب اچھی طرح دیکھ چکے ہوں۔ بسا اوقات عبارت میں کسی قسم کی غلطی و ابہام کی وجہ سے صحیح معنی اور مفہوم اخذ نہیں ہوپاتا؛ چنانچہ اس مرحلے کو اگر پہلے ہی عبور کرلیا جائے تو یقینا آپ مکمل اطمینان و سکون کے ساتھ طلبہ کو سمجھا سکتے ہیں۔ اسی طرح عبارت کے مالھا وماعلیہا کی آگاہی اور واقفیت سے افہام کا راستہ آسان اور سہل ہوجاتا ہے۔ سبق کی روانی اور رفتار بھی متاثر نہیں ہوتی۔ یاد رکھئے! سمجھانے سے قبل سمجھنا، بولنے سے پہلے سوچنا اور کرنے سے پیشتر نتائج پہ نظر رکھنا، آپ کے اندازِ تدریس اورمعیارِ تعلیم پر خوش گوار اوردیرپا اثرات ڈال سکتے ہیں۔
۳-اسلوب ِتعلیم:
ہر انسان کو خالق کائنات نے مختلف خوبیوں اورمحاسن سے نوازا ہے۔ یہ ضروری نہیں کہ ایک اچھائی اور خوبی کسی انسان میں ہو تو لازماً دوسرے فرد میں بھی پائی جائے؛ مگر چند ایسی صفات ضرور ہیں جو مشترکہ طورپر ہر انسان کو قدرت کی طرف سے ودیعت کی گئی ہوتی ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ کون کتنا اور کس خوبی سے اس کو اپنے تصرف میں لا کر اپنے لیے ترقی کی منزلیں قریب کرت اہے۔ ایک مقبول اور ہر دل عزیز استاذ کی پہچان اور اُس کا تعارف یہ ہے کہ وہ سبق اور درس کو شاگردوں کے ذہن وفہم کے قریب لے آئے ۔ یہ قرب و نزدیکی اس قدر ہو کہ کوئی طالب علم اُس کتاب و سبق سے وحشت و تنگی اور بُعد محسوس نہ کرے ؛ لیکن یہ کیسے ممکن ہے؟ جواب بہت سیدھا اور آسان ہے ۔ درس ہمیشہ” تقطیع اور تجزّی“ کے اصول پر پڑھای اجائے ۔ یعنی دانش گاہ میں قدم رکھنے سے قبل ہی آپ ذہناً اس بات کو مستحضر کرلیں کہ آج میرے سبق میں کتنی باتیں ، کتنے مباحث ، کتنے فائدے اور کتنے نکات ہوں گے؟ اس تعین و تحدید کے بعد عبارت پر ان کو منطبق کردیں۔ انشاء اللہ العزیز کامیابی آپ کے قدم چومے گی۔
۴-طلبہ کی استعداد:
بلاشبہ ہر اچھے مدرس کی تمنا اور آرزو ہوتی ہے کہ اس کے طلبہ علمی لیاقت اور فنی استعداد میں مضبوط اور پختہ ہوں۔ اس خواہش کے شگوفے اسی وقت چٹکیں گے ، جب آپ طلبہ کو بھی اپنی تدریسی عمل کا حصہ بنالیں۔ اس کی پہلی صورت تو یہ ہے کہ: روزانہ کی بنیاد پر اُن سے عبارت خوانی کروائی جائے۔ ”سب نہ سہی ، ایک سہی، زیادہ نہ سہی، مختصر سہی “ کے اصول اور ضابطے کو سامنے رکھ کر چلاجائے تو بہت کچھ پایا جاسکتا ہے ۔ دوسری صورت یہ ہے کہ : گزشتہ سبق کاحتی الامکان اعادہ کروائیں، چاہے خود سن کر یا آپس میں تقسیم کرکے۔ تیسری صورت یہ ہے کہ :ہفتے دو ہفتے میں سابقہ خواندگی کا سرسری لیکن تنقیدی جائزہ لیں ۔ان امور کی رعایت سے استاذ کے ذہن میں خود بھی نئی نئی باتیں اور اچھوتے خیالات جنم لیتے ہیں، جو عمل کی بھٹی سے نکل کر کُندَن کی صورت اختیار کرجاتے ہیں۔ ضرورت ہے فقط ہمت اورحوصلہ کی۔
۵-مصطلحاتِ فن اور طلبہ:
اولین اور بنیادی درجات میں ا س بات کا التزام و لحاظ رکھا جائے کہ طلبہ کو صرف ونحو، فقہ و اصولِ فقہ ، اصولِ تفسیر و حدیث اور منطق و بلاغت کے مصطلحات و اصطلاحات خوب ازبر ہوں۔ شروع میں اس اہم اور طالب ِریاضت مرحلے کو نظر انداز کر دینے کا نقصان آخر تک نظر آتا ہے۔ ابتدائی طالب علموں کے اذہان و افکار اُس خام مال کی طرح ہیں، جسے ماہر اور موقع شناس کاریگر کسی بھی عمدہ سانچے اور خوبصورت ظرف میں ڈھال سکتا ہے؛ چنانچہ ا س وقت کا معیاری اور کامیاب استعمال اسی صورت ممکن ہے ۔جب اُن تازہ ذہنوں کو ماہر و مشاق مدرس اپنے متعلقہ فن کی موٹی موٹی تعریفات مثالوں کے ساتھ یاد کرا دے۔ جو آگے چل کر ان کے لیے مطولات کے سمجھنے میں مددگار ثابت ہوگا۔
۶-علمی تشنگی کی آبیاری:
حدیث مبارکہ میں رسول معلّم صلی اللہ علیہ وسلم نے اچھے اور نکتہ رس سوال کو ”آدھا علم“ فرمایا ہے۔ سوال یہ ہے کہ طالبان علومِ نبوت میں یہ علمی پیاس اور تشنگی کا ذوق و شوق کیسے اور کیوں پیدا ہوسکتا ہے؟ یا کیا جاسکتا ہے؟ اس کا حل احادیث مبارکہ کی کتب میں موجود ہے۔حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ عنہ کی روایت ہے ایک مرتبہ آں حضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے صحابہٴ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی جماعت سے ایک سوال فرمایا، کسی کو جواب نہ آیا ۔ میں جان گیا کہ اس سوال کا کیا جواب ہے؛ لیکن شرم و حیا اور چھوٹے ہونے کی وجہ سے، مجھے بولنے کی ہمت نہ ہوئی۔ شیخ عبدالفتاح ابوغدہ رحمہ اللہ اپنی کتاب ”الرسول المعلم…“ میں مندرجہ حدیث شریف کے حاشیہ میں رقم طراز ہیں: ”استاذکے لیے مستحب ہے کہ وہ اپنے متعلّمین و مستفیدین سے ازخود سوال کرے ۔ جس کے ذریعے ان کے اندازِ فہم کی جانچ و پرکھ کے ساتھ ساتھ، ان میں غور و فکر اور سوچ و بچار کی جانب رغبت و شوق پیدا کرنے کی کاوش شامل ہو۔ اگرچہ معلم طلبہ کے سامنے اس بات کو اس انداز میں بیان کرچکا ہو ، کہ وہ اپنی کم فہمی اور ناسمجھی کی بناپر اس سوال کی گہرائی اورحقیقت تک نہ پہنچ سکے ہوں۔“ (ص108)
۷-دورانِ درس ناصحانہ کلمات:
والد اور استاذ کے مابین کلیدی فرق و امتیاز یہ ہے کہ باپ اپنے بچے کی مادی اور ظاہری و جسمانی نشوونما کرتا ہے؛ جب کہ ایک مشفق و مہربان استاذ اپنے شاگرد کی باطنی اور روحانی تربیت کا فریضہ سر انجام دیتا ہے۔ ہر باصلاحیت معلم اور جوہر شناس استاذ کی نظر ہمہ وقت اپنی روحانی اولاد کی سیرت و کردار پہ رہتی ہے، اور کیوں نہ ہو ؟ کہ اس قیمتی اور زریں دور کی کمی اور کجی پوری عمر کا روحانی روگ بن سکتی ہے؛ اس لیے ضرورت ہے کہ حقیقت پسند اور نفسیات شناس مدرس اپنے آپ کو فقط کتاب کی تدریس و تعلیم تک محدود نہ کرے؛ بلکہ دورانِ درس کوئی نصیحت آموز کلمہ ، کوئی فکر انگیز واقعہ ، کوئی نظریہ ساز جملہ کہہ کر اپنے زیر تربیت نونہالوں کی عملی زندگی کا دھارا بدلنے میں مثبت اور نتیجہ خیز کردار بھی ادا کرے۔
۸-معتدل مزاجی:
طلبہ کے ساتھ اعتدال ، میانہ روی اور دوستانہ رویہ ، ان کی فکری ، علمی اور ذہنی صلاحیتوں کو ابھارنے اور نکھارنے میں بے حد مفید و معاون ثابت ہوتاہے۔ جہاں خشک مزاجی، بے جا غصے کا اظہار اور حدِ اعتدال سے بڑھی ہوئی سختی اور تشدد آپ کو طالب علم سے دور کردیتی ہے ، وہاں افراط کی شکار نرمی ،طبیعت میں عدم سلیقے کا عنصر اور طلبہ سے فضول گپ شپ بھی درس گاہ کے عمومی اور آپ کے پڑھانے کے خصوصی ماحول کو متاثر و بدنما کرتی ہے۔ ایسی فضا اور ماحول جس میں توسط و اعتدال کا رنگ نمایاں ہو ، آپ کی ذہنی پختگی اور بہترین انتظام کا مظہر سمجھی جائے گی۔ ورنہ اس معاملے میں کسی بھی قسم کی کمی یا کوتاہی سے پیدا ہونے والے نتائج کا سدِباب ناممکن اور محال ہے۔
۹-طلبہ میں امتحانی شعور اُجاگر کرنا:
ایک کسان کے لیے انتہائی خوشی اور مسرت کا سب سے بڑا لمحہ وہ ہوتاہے، جب اسے اپنے ہاتھوں بویا ہوا بیچ ․․․․ایک لہلہاتی ، ہواکے دوش پر لپکتی اور ہری بھری فصل کی صورت میں نظر آتا ہے۔ بالکل اسی طرح صاحب ِدل استاذ کے لیے راحت اور عزت کا مکمل سامان اس وقت میسر ہوتاہے، جب اس کے ہونہار طلبہ امتیازی اور نمایاں حیثیت و مرتبہ حاصل کریں۔ اگرچہ امتحان دینا شاگرد اور متعلّم کا کام ہے؛ مگر اس کی تیاری کے لیے لائحہ عمل، طریقہٴ امتحان کی وضاحت اور لکھنے کے ڈھنگ کی صورت گری جیسے مراحل استاذ کے ہاتھوں ہی وقوع پزیر ہوتے ہیں۔ جائزہ چاہے تحریری ہو یا تقریری ۔ ہردو کے لیے چند راہ نما اور سودمند ہدایات بتلانے سے طالب علم کا حوصلہ بڑھتا ہے، اسے ڈھارس ملتی ہے ، اسے یقین ہو جاتا ہے کہ ایک قوت میری سرپرستی اور راہ دکھلانے والی موجود ہے ۔ اس احساس کا منطقی نتیجہ بہت خوش گوار اور فرحت بخش ہوتا ہے۔
۱۰-اساتذہ میں باہم جوڑ و اتفاق:
کوئی ادارہ ، جماعت اور معاشرہ ایک فر د و انساں سے مکمل نہیں ہوتا۔ مختلف مزاج اور متفرق طبیعتیں مل کر ہی کسی مدرسہ ، اسکول اور گھر کو وجود بخشتی ہیں۔ ان الگ الگ مزاجوں اور طبیعتوں کا کسی امر پر متفق و متحد ہوجانا ، اُس کی پائیداری ، مضبوطی اور پختگی کے لیے بنیادی و کلیدی اہمیت رکھتا ہے۔ اس کے برعکس افتراق و انتشار ، فتنہ و فساد اور ٹوٹ پھوٹ کے سوا کچھ ہاتھ نہیں آتا۔ قابل ، محنتی اور مخلص استاذ ہمیشہ ایثار پیشہ ، منکسر النفس اور اعمال صالحہ کا حریص ہوتا اور رہتا ہے۔ اس کی ابتدا سے یہ کوشش ہوتی ہے کہ اس کی ذات ، کردار اور شخصیت؛ مدرسہ ،اسکول اور ادارے کے مجموعی ماحول کے لیے تکدر اور خرابی کا باعث و سبب نہ بنے۔ اس کے کسی قول و عمل سے دوسرے کی دل آزاری اور دل شکنی نہ ہو۔ ایک شخص اور فرد کا یہ عزم ، ارادہ اور نیت پورے ادارے اور جماعت کے استحکام و دوام کا ذریعہ بن سکتاہے۔ وگرنہ ایک چنگاری ہی پورے ڈھیر کو راکھ بنا دینے کے لیے کافی ہو جاتی ہے۔اللہ رب العزت ہم سب کو صحیح معنوں میں دین کا خادم و سپاہی بنائیں !آمین۔
***