دین اسلام کی دو حیثیتیں
جاننا چاہیے کہ دین اسلام کی دوحیثیتیں ہیں، ایک ظاہری اور دوسری باطنی جہاں تک دین کی ظاہری حیثیت کا تعلق ہے تو اس کا مقصود مصلحت عامہ کی نگہداشت اور اس کی دیکھ بھال ہے اور اس کی صورت یہ ہے کہ وہ احکام ومعاملات جو اس مصلحت عامہ کے لیے بطور ذرائع اور اسباب کے ہیں ان کا قیام عمل میں لایا جائے اور ان کی اشاعت کی کوشش کی جائے ۔جن چیزوں سے مصلحت عامہ پر زد پڑتی ہو اور جن امور کی وجہ سے اس مصلحت عامہ میں تحریف ہوتی ہو ان کو سختی سے روکا جائے ۔یہ تو ہوئی دین کی ظاہری حیثیت جہاں تک معاملہ ہے دین کی باطنی حیثیت کا تو نیکی وطاعت کے کاموں سے دل پر جو اچھے اثرات مرتب ہوتے ہیں ان کے احوال وکوائف کی تحصیل دین کی باطنی حیثیت کا مقصود اور نصب العین ہے ۔ حضرت امام شاہ ولی اللہ دہلوی رحمة اللہ علیہ نے” ہمعات“ کے آغاز میں ایسا ہی تحریر فرمایا ہے۔
تعلیمِ کتاب وسنت اور تزکیہ باطن میں تلازم
جب یہ معلوم ہوا کہ دین کی دوحیثیتیں ہیں تو لازماً اس دین کی حفاظت کی بھی دوحیثیتیں ہوں گی۔ ایک انسانوں میں قرآن وسنت کی تعلیم و تبلیغ اور تدریس۔ دوسرے یہ کہ انسانوں کی باطنی پاکی وتہذیب۔
چنانچہ قرآن مجید میں کم از کم چار مقامات پر ایک ہی اسلوب میں اللہ رب العزت نے حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے فرائض نبوت و رسالت کے جو اہم پہلو بیان فرمائے ہیں؛ ان میں سے ایک تزکیہ باطن بھی ہے، یعنی ظاہر شریعت کی تعلیم کے ساتھ ساتھ انسان کی باطنی پاکیزگی بھی کار نبوت کا لازمی حصہ ہے ؛ ارشاد ہے:
…﴿رَبَّنَا وَابْعَثْ فِیْہِمْ رَسُوْلًا مِنْہُمْ یَتْلُوْا عَلَیْہِمْ اٰیٰتِکَ وَیُعَلِّمُہُمُ الْکِتٰبَ وَالْحِکْمَةَ وَیُزَکِّیْہِمْ اِنَّکَ اَنْتَ الْعَزِیْزُ الْحَکِیْم﴾․ (البقرہ:129)
”اے پروردگار ہمارے! اور بھیج ان میں ایک رسول ؛ انہی میں تاکہ پڑھے ان پر تیری آیتیں اور سکھلاوے ان کوکتاب اور حکمت کی باتیں اور پاک کرے ان کو، بے شک توہی ہے بہت بڑی حکمت والا۔“
…﴿کَمَا اَرْسَلْنَا فِیْکُمْ رَسُوْلاً مِّنْکُمْ یَتْلُوْا عَلَیْکُمْ اٰیٰتِنَا وَیُزَکِّیْکُمْ وَیُعَلِّمُکُمُ الْکِتٰبَ وَالْحِکْمَةَ وَیُعَلِّمُکُمْ مَّالَمْ تَکُوْنُوْا تَعْلَمُوْن﴾․(البقرہ:151)
”جیسا کہ بھیجا ہم نے تم میں رسول تم ہی میں کا، پڑھتا ہے تمہارے آگے آیتیں ہماری اور پاک کرتا ہے تم کو اور سکھلاتا ہے تم کو کتاب اور اس کے اسرار اور سکھلاتا ہے تم کو جو تم نہ جانتے تھے۔“
…﴿لَقَدْ مَنَّ اللّٰہُ عَلَی الْمُئْومِنِیْنَ اِذْ بَعَثَ فِیْہِمْ رَسُوْلاً مِّنْ اَنْفُسِہِمْ یَتْلُوْا عَلَیْہِمْ اٰیٰتہ وَیُزَکِّیْہِمْ وَیُعَلِّمُہُمُ الْکِتَابَ وَالْحِکْمَةَ وَاِنْ کَانُوْا مِنْ قَبْلُ لَفِیْ ضَلَالٍ مُّبِیْن ﴾․(آل عمران:164)
”اللہ نے احسان کیا ایمان والوں پر، جوبھیجا ان میں رسول انہی میں کا، پڑھتا ہے ان پر آیتیں اس کی اور پاک کرتا ہے ان کو اور سکھلاتا ہے ان کو کتاب اور کام کی بات اور وہ تو پہلے سے صریح گم راہی میں تھے۔“
…﴿ھُوَ الَّذِیْ بَعَثَ فِیْ الْاُمِّیِّیْنَ رَسُوْلاً مِّنْہُمْ یَتْلُوْا عَلَیْہِمْ اٰیٰتِہ وَیُزَکِّیْہِمْ وَیُعَلِّمُہُمُ الْکِتٰبَ وَالْحِکْمَةَ وَاِنْ کَانُوْا مِنْ قَبْلُ لَفِیْ ضَلَالٍ مُّبِیْن﴾․(الجمعہ:2)
”وہی ہے جس نے اٹھایا ان پڑھوں میں ایک رسول انہی میں کا، پڑھ کر سناتا ہے ان کو اس کی آیتیں اور ان کو سنوارتا ہے اور سکھلاتا ہے ان کو کتاب اور عقل مندی اور اس سے پہلے وہ پڑے ہوئے تھے صریح بھول میں۔“(ترجمہ :حضرت شیخ الہند)
خلاصہ یہ کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم
1.. کتاب اللہ کی آیات پڑھتے ہیں۔
2.. اپنی امت کا تزکیہ کرتے ہیں۔
3.. کتاب اللہ کی تعلیم دیتے ہیں۔
4.. اور انہیں حکمت ایمانی سکھاتے ہیں ۔
ان چاروں آیات میں تعلیم کتاب وحکمت کے ساتھ’ تزکیہ ‘ کاذکر ہے؛ جس سے تعلیم کتاب وحکمت کے ساتھ تزکیہ نفوس کا لزوم اور تلازم معلوم ہوتاہے۔ تلازم اس معنی میں کہ تعلیم اور تزکیہ باہم ایک دوسرے سے مربوط ہیں ، انہیں ایک دوسرے سے الگ نہیں کیا جاسکتا، ورنہ تزکیہ باطن کے بغیر تعلیمِ شریعت بے روح ہوجائے گی… جیسے پھول بغیر خوش بو کے اور پھل بغیر کسی ذائقے کے ۔
علماءِ امت تعلیم کتاب وسنت کے ساتھ تزکیہ باطن کے بھی مکلف ہیں
علماءِ امت ؛جو وارثین علوم نبوت ہیں، حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نیابت میں ان چاروں امور کی انجام دہی کے مکلف ہیں۔
بلاشبہ حضور خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کے مقاصد بعثت میں سے ایک مقصد نفوس انسانی کا تزکیہ بھی ہے۔ جس کو اصطلاح میں سلوک وتصوف قرار دیا گیاہے۔ تزکیہ کا لفظی معنیٰ ہے پاک صاف کرنا، نشوونما دینا۔ اصطلاحی طور پر معنی ہے نفس انسانی میں موجود شر کے فطری غلبے کو دور کرنا اور اسے گناہوں کی ان آلودگیوں سے پاک کرنا جو روحانی نشوونما میں رکاوٹ بنتی ہیں۔
دورِ اَوّل میں صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی پاکیزہ صحبت سے اپنے قلوب کو مجلّٰی اور اپنے ظاہر وباطن کو مزکیّٰ کیا۔ دور نبوت کے بعد تابعین کرام نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی صحبتیں اٹھائیں، تابعین سے تبع تابعین نے فیض پایا… یوں چراغ سے چراغ جلتا گیا۔
پھر زمانہ جوں جوں دَور نبوت سے دُور ہوتا چلا گیا اس بات کی ضرورت بڑھتی گئی کہ مشائخ کرام دائرہ شریعت میں رہتے ہوئے تزکیہ وسلوک کے خاص افعال واشغال انجام دیں۔ چنانچہ اس سلسلے میں مشائخ نے بے پناہ محنتیں ،ریاضتیں اور مجاہدے کیے ، امت کو تزکیہ وسلوک کا بے غبار نظام دیا۔ وہ طالبینِ حق کو حسد، بغض، کینہ، ریا، کبر، عجب، غیبت، جھوٹ، شہرت، بخل، غضب ، حب دنیا، حب جاہ ومال اور دوسرے رذائل سے پاک کرتے، اور انہیں خدا طلبی، محبتِ رسول، اتباعِ سنت، اخلاص، زُہد، توکل، انابت وخشیت ، تسلیم ورضا، صدق وراستی، حق پرستی، تواضع، انکساری ، قناعت وسخاوت اور صلہ رحمی کا پیکر بناتے ۔
ہمارے اسلاف علوم ظاہر و باطن کے جامع ہوتے تھے
ہمارے اسلاف نے کبھی اس سے اعراض نہیں برتا، وہ محض علم کے منبع نہیں ہوتے تھے، بلکہ سلوک واحسان کی وادیوں کے رمز شناس بھی ہوتے تھے۔ اسلاف علماءِ کرام ظاہری علم کی تحصیل کے بعد علم باطن اور حصول احسان کے لیے متوجہ ہوتے اور اس میں بھی درجہ کمال حاصل کرتے۔ ایک عارف کا کہنا ہے کہ :
”مدرسوں میں رہنے سے علم نبوت تو آجاتا ہے لیکن نور نبوت نہیں آتا۔ جس طرح علم نبوت حاصل کرنے کی کوشش کی جاتی ہے اسی طرح نور نبوت حاصل کرنے کی کوشش کرنی چاہیے؛ تاکہ علماء محض’ علماءِ ظاہر‘ نہ رہیں’علماءِ آخرت‘ بھی بن جائیں ، اس کے لیے اہل دل کی صحبت ضروری ہے۔“
یہاں چندمثالیں عرض ہیں کہ علوم ظاہر میں باوجود صاحب کمال ہونے کے وقت کے جیدعلماء کسی اللہ والے کے پاس حاضر ہوکر ان کے دست گرفتہ ہوئے اور سلوک واحسان کی منزلیں طے کیں:
1…درس نظامی کے بانی ملا نظام الدین رحمة اللہ علیہ، جنہوں نے فتاویٰ عالم گیری مرتب کی اور جن کی ماتحتی میں 500 علماء کام کرتے تھے، حضرت شاہ عبدالرزاق بانسوی رحمة اللہ علیہ کی خدمت میں حاضر ہوکر بیعت ہوئے اور تزکیہ وسلوک کی منزلیں طے کیں۔ حضرت شاہ عبدالرزاق بانسویؒ اصطلاحی عالم نہ تھے، مگر تصوف میں بلندمقام تھے۔
2…شیخ ضیاء الدین خالد کردی رحمة اللہ علیہ شام کے بہت بڑے حنفی عالم اور علمی دنیا کے مرجع تھے ۔ اپنے تمام تر علم وفضل کے باوجود شیخ کے متلاشی ہوئے ، طویل اور پر مشقت سفر کرکے دہلی آئے اور حضرت شاہ غلام علی نقشبندی مجددی رحمة اللہ علیہ سے بیعت ہوکر تزکیہ وسلوک میں بلندمقام حاصل کیا ، خلعت خلافت سے نوازے گئے ، جب واپس شام گئے تو کبار علماء سمیت ہزاروں لوگ آپ سے بیعت ہوئے ، ان میں علامہ محمد امین ابن عابدین شامی ؒاور صاحب تفسیر روح المعانی علامہ سیدشہاب الدین محمود آلوسی رحمة اللہ علیہ بھی شامل تھے۔
3…حجة الاسلام مولانا محمدقاسم نانوتوی رحمة اللہ علیہ اور فقیہ النفس حضرت مولانا رشید احمد گنگوہی رحمة اللہ علیہ ، حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمة اللہ علیہ، حضرت حاجی امداداللہ مہاجرمکی رحمة اللہ علیہ سے بیعت ہوئے ، تزکیہ وسلوک کی منازل طے کیں، باوجودیکہ حضرت حاجی امداداللہ ؒ اصطلاحی عالم بھی نہ تھے۔
شیخ الہندحضرت مولانا محمودحسن دیوبندی ؒ، حضرت مولانا خلیل احمدسہارنپوریؒ، حضرت مولانا سید حسین احمدمدنیؒ، حضرت علامہ انورشاہ کشمیری ؒ، شیخ الحدیث حضرت مولانامحمدزکریاؒ یہ تمام اکابر جامع شریعت وطریقت تھے۔
4…حضرت علامہ سیدسلیمان ندوی رحمہ اللہ جس پائے کے عالم تھے محتاج بیان نہیں ہے، آپ کو شروع میں تصوف سے ایک گونہ تنفر تھا، لیکن قدرت نے دست گیری فرمائی اور تھانہ بھون جاکر حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانوی رحمة اللہ علیہ سے بیعت ہوئے بیعت کے بعد نہ صرف آپ کی زندگی میں انقلاب آیا، بلکہ تحریر وتصنیف میں بھی اسلوب و آہنگ تبدیل ہوگیا۔
5…قطب الارشادحضرت مولانا محمد عبداللہ بہلوی رحمة اللہ علیہ جب دیوبندمیں رسمی تعلیم سے فارغ ہوئے تو حضرت علامہ انورشاہ کاشمیری رحمة اللہ علیہ نے ان سے فرمایا : بخاری شریف ختم ہوگئی ، لیکن روح بخاری ابھی نہیں ملے گی، جاؤ! کم ازکم چھ ماہ کسی اللہ والے کی جوتیاں اٹھاؤ، پھر تمہیں روح بخاری ملے گی۔
6…رئیس المحدثین حضرت مولانا سلیم اللہ خان رحمة اللہ علیہ بچپن میں ہی حکیم الامت حضرت تھانویؒ کی مجالس میں شرکت فرماتے رہے، بعد میں اپنے علم وفضل کے باوجود حضرت مولانا مسیح اللہ خان جلال آبادی ؒ، ان کی وفات کے بعد حضرت مولانا فقیر محمد پشاوری، خواجہ خان محمد جیسے بزرگوں سے وابستہ رہے ۔
7…یہ بات تو بہت معروف ہے کہ مفتی اعظم پاکستان حضرت مولانا مفتی محمد رفیع عثمانیؒ اور شیخ الحدیث حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی مدظلہم نے جب اپنے والد ماجد حضرت مولانا مفتی محمد شفیع عثمانی نوراللہ مرقدہ سے بیعت کی درخواست کی تو حضرت ؒ نے آپ دونوں بھائیوں کو حضرت ڈاکٹر عبد الحئی عارفی رحمة اللہ علیہ سے بیعت ہونے کو کہا۔ چنانچہ دونوں حضرات حضرت عارفی رحمة اللہ علیہ سے بیعت ہوئے اور اپنے شیخ ؒ کی ہدایات کے مطابق تزکیہ وتربیت کے تمام مراحل سے گزرے ۔
ہمارے مدارس محض تعلیم گاہیں نہ تھیں، بلکہ غیر رسمی خانقاہیں بھی تھیں
یہ عمومی رنگ تھا ہمارے اساتذہ میں ، یہی وجہ ہے کہ ہمارے مدارس بھی نری تعلیم گاہیں نہ تھیں، بلکہ وہ غیر رسمی خانقاہیں بھی ہوتی تھیں۔ کون نہیں جانتا کہ ایک وقت تھا جب دارالعلوم دیوبند کے شیخ الحدیث اور مہتمم سے لے کر چوکیدار تک سب کے سب صاحب نسبت ہوتے تھے۔ پھر اس دارالعلوم سے پھوٹنے والی شاخوں میں بھی یہ رنگ نمایاں تھا۔ اساتذہ کی اکثریت کسی نہ کسی صاحب نسبت اللہ والے سے وابستہ ہوتی تھی، درجات علیا کے اساتذہ تو اپنی ذات میں شیخ طریقت اور صاحب ارشاد بھی ہوتے۔ مدارس میں ان کا مبارک اور نورانی وجود طالبین کے لیے مرجع کی حیثیت رکھتا تھا، یہی دینی مدارس کی اصل روح تھی۔
پاکستان کے معروف دینی مدارس میں مثلاً: جامعہ اشرفیہ لاہور میں حضرت مولانا مفتی محمد حسن امرتسریؒ، حضرت مولانا محمدادریس کاندھلویؒ، حضرت مولانا محمدمالک کاندھلوی، حضرت مولانا صوفی محمد سرورؒ، جامعہ خیر المدارس ملتان میں حضرت مولانا خیر محمد جالندھریؒ، حضرت مولانا مفتی محمدعبداللہ ملتانیؒ، حضرت مولانا مفتی عبدالستارؒ، حضرت مولانا منظور احمدؒ، مولانا سیدقمر الدین شاہ ؒ، جامعہ بنوری ٹاؤن کراچی میں محدث عصر مولانا سید محمد یوسف بنوری ؒ، فقیہ وقت مولانا مفتی ولی حسن ٹونکیؒ، امام اہل سنت مولانا مفتی احمدالرحمٰنؒ ، شہید اسلام مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ، دار العلوم کراچی میں مفتی اعظم پاکستان مولانا مفتی محمدشفیع عثمانیؒ، شیخ الحدیث مولانا سحبان محمودؒ۔ جامعہ فاروقیہ کراچی میں شیخ الحدیث حضرت مولانا سلیم اللہ خان ؒ…، دارالعلوم حقانیہ اکوڑہ خٹک میں شیخ الحدیث حضرت مولانا عبدالحق حقانی ؒ، شیخ الحدیث مولانا عبد الغفور سواتی ؒ، شیخ الحدیث حضرت مولانا مفتی محمد فریدؒ ؒ…، دارالعلوم کبیر والا میں مولانا مفتی عبدالقادر…، باب العلوم کہروڑ پکا میں مولانا عبدالمجید لدھیانویؒ …، جامعہ حقانیہ ساہیوال میں مولانا مفتی سیدعبدالشکور ترمذی رحمہم اللہ تعالیٰ…، جیسے اصحاب ِ علم وفضل تزکیہ واحسان کی وادیوں کے شناور تھے۔ ان کے دم قدم سے روحانی مجالس قائم رہتی تھیں۔علماء وطلبہ اور عا مة الناس ان کی صحبتوں سے فیض یاب ہوتے اور اپنے پیاسے دلوں کو سیراب کرتے۔
آج دینی مدارس کا احسانی رنگ پھیکا پڑچکا ہے
مگر اس بات کے اعتراف میں کچھ مضائقہ نہیں کہ اب ہمارے مدارس میں یہ احسانی رنگ کافی حدتک کمزور پڑچکا ہے ۔ وہ پہلے کی جیسی سرگرمی باقی نہیں رہی ؛ حالانکہ پہلے کی بنسبت ان مجالس رُشد وہدایت کی پہلے کی بنسبت آج زیادہ ضرورت ہے۔
آج جب کہ موّاج فتنوں ، عقلی اشکالات، الحادی نظریات، شیطانی خرافات اور مغربیت کی یلغار ہے، طغیان وعصیان بے قابو ہوچکے ہیں، دہریت کی مسموم اور تند وتیز ہوائیں ہمارے مدارس کی چاردیواری میں بھی لپک لپک کر داخل ہو رہی ہیں ، بظاہر ایک چھوٹے سے آلے موبائل فون میں اخلاق واعمال اور عقائد ونظریات کے بگاڑ کی ہرشے موجود ہے۔ ہمارے مدارس کے طلبہ کرام بھی سوشل میڈیا کے اس سیلابِ بلا میں بہتے نظر آرہے ہیں۔
دینی مدارس کے طلبہ کی ترجیحات کارخ موڑا جارہا ہے ۔ درسی سال اختتام کو پہنچتا ہے تو طلبہ کودنیا طلبی اور مادیت پرستی کی طرف دعوت کی باقاعدہ آوازیں لگتی ہیں۔ تعلیمی سال کا آغاز ہوتا ہے تو بہت سے مدارس عصری تعلیم ،کمپیوٹر کورسز اور سوشل میڈیا کے اسکلز سکھانے کا آوازہ اس آہنگ کے ساتھ بلندکرتے ہیں کہ مدرسہ کا اصل مقصد ہی کہیں دور جا پڑتا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ اکابر علمائے کرام اور اساتذہ واضح طور پر محسوس کرنے لگے ہیں کہ طلبہ میں نہایت تیزی سے قلبی سکون اور ذہنی یکسوئی ناپید ہورہی ہے ، دلوں کی پراگندگی میں اضافہ ہورہا ہے ، اس کا لازمی نتیجہ تعلیم میں بے توجہی اور امتحانات میں راسب طلبہ کی بڑھتی ہوئی تعداد ہے۔ ایسے میں اس طرح کی مجالس کی ضرورت ازحد بڑھ چکی ہے۔
دینی مدارس کے بارے اکابر علماء کی فکرمندی
ہمارے اکابر اول روز سے اس سلسلے میں فکرمند رہے ہیں، جہاں کہیں کوتاہی نظر آئی اس کی نشا ن دہی کی ، چناں چہ حکیم الاسلام حضرت مولانا قاری محمد طیب رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں:
”یہ چیز بالکل صحیح ہے کہ قدیم زمانہ میں مدرسہ ہی خانقاہ ہوتا تھا، جس کے اوپر تعلیم کا پردہ تھا، نام تو نہیں آتا تھا کہ ہم تصوف سکھا رہے ہیں، طریقت سکھارہے ہیں، لیکن ان بزرگوں کا طرز عمل، ان کا کردار، کیریکٹر وہ تھا کہ ان کی مجلسوں میں بیٹھ کر خود بخود اخلاق درست ہو جاتے تھے، تو اب ظاہر بات ہے کہ کچھ تو اساتذہ میں بھی کمی ہے اور کمی کی بنا پر جو کچھ بھی ہو، مگر صورت حال یہ ہے کہ عام طور پر اساتذہ کی تکمیل اور تزکیہ اخلاق کی طرف توجہ نہیں ہے، جتنے نئے اساتذہ ہیں ان کی توجہ ادھر نہیں ہے۔ “ (البلاغ: صفر المظفر:1439ھ)
اسی بات کو محدث العصر حضرت مولانا محمد یوسف بنوری رحمة اللہ علیہ نے ذرا واضح انداز میں کہا ہے:
”ہمارے اکابر کے لیے تعلیم وتدریس ،تصنیف وتالیف ،دعوت وارشاد اور امامت وخطابت کے مشاغل کبھی شکم پروری اور جاہ طلبی کا ذریعہ نہیں رہے ،بلکہ یہ خالص دینی مناصب تھے ۔ اور بزرگوں کے اخلاص وتقویٰ ،خلوص وللّٰہیت ،ذکر وشغل اور اتباع سنت نے ان مناصب کے وقار کو اور بھی چار چاند لگا رکھے تھے، لیکن افسوس ہے کہ کچھ عرصہ سے دینی مدارس کی روح دن بدن مضمحل ہوتی جارہی ہے۔ اساتذہ وطلبہ میں شب خیزی، ذکر وتلاوت ،زہد وقناعت ،اخلاص وللّٰہیت، اور محنت وجانفشانی کی فضا ختم ہورہی ہے۔ نماز فجر کے بعد تلاوت وقرآن مجید کی جگہ عام طور پر اخبار بینی لے رہی ہے، ریڈیو، ٹی وی جیسی منحوس چیزیں ،جدید تمدن نے گھر گھر پہنچادی ہیں اور ہمارے دینی قلعے دینی مدارس بھی ان وباؤں سے متاثر ہو رہے ہیں۔ یہ وہ خطرناک صورت حال ہے جس نے ارباب بصیرت اہل دل کوبے چین کر رکھا ہے۔“
خیال فرمائیے کہ حضرت بنوری رحمة اللہ علیہ کے یہ الفاظ آج سے چالیس پینتالیس برس قبل کے ہیں، آج اگر وہ دیکھتے کہ اب طلبہ کو ٹی وی دیکھنے کے لیے کہیں چھپ چھپ کے نہیں جانا پڑتا، بلکہ ہر شخص کے ہاتھ میں ایک اسمارٹ ٹی وی آگیا ہے ، بہت سوں نے مووی کیمرے اپنے ہاتھوں میں تھام لیے ہیں… تو کیا حضرت بنوری نوراللہ مرقدہ کی تحریر کا یہی رنگ ہوتا یا وہ اس سے زیادہ زور دار انداز میں ان مکروہات کی تردید و تنکیر فرماتے؟
مدرسہ کاماحول خاص اہمیت کا حامل ہے
یہ حقیقت ضرور پیش نظر رہنی چاہیے کہ یہ مدارس ہی ہیں جہاں سے تمام دینی شعبوں اور اسلامی تحریکوں کو رجالِ کار فراہم ہوتے ہیں ۔ مفتیان کرام ، علماءِ عظام، اساتذہ، خطباء، ائمہ مساجد، داعیان دین، اسلامی جماعتوں کی قیادت اسی ٹکسال سے ڈھل کے نکلتی ہے، اس لیے مدرسہ کاماحول خاص اہمیت کاحامل ہے۔
دینی مدارس میں تعلیم حاصل کرنے والوں کی کثیر تعداد مدارس میں رہائش اختیار کرتی ہے، ان کی تربیت کا بہترین زمانہ اور وقت مدرسہ کے سپرد ہوتا ہے، اس دوران نوجوان طلبہ کے مختلف قلبی میلانات اور ذہنی رجحانات کا خیال رکھنا اور نگرانی کرنا بھی ضروری ہے۔ گرفت کمزور ہوجائے تو کسی بھی وقت کوئی ناپسندیدہ رجحان زندگی کے دھارے کو غلط رخ پر ڈال سکتا ہے۔ فکری گم راہی، عملی کوتاہی اور اخلاقی بے اعتدالی کے چھینٹے دامنِ حیات کو داغ دار کرسکتے ہیں۔
مدارس کا نظامِ تربیت اس پہلو سے قابل توجہ ہے جس کے لیے خانہ پوری کرنے والے اساتذہ کی نگرانی کافی نہیں، بلکہ ایسے صاحب دَرد اساتذہ کی ضرورت ہے جن میں اخلاص ہو، للہیت ہو، تقویٰ و خشیت ہو، جو سینے میں شفقت سے معمور دل رکھتے ہوں اور جو طلبہ کو بچوں اور چھوٹے بھائیوں کی طرح عزیز رکھتے ہوں۔
پہلے کے اساتذہ اپنے اس منصب سے غافل نہیں ہوتے تھے ، وہ طالب علم کے اخلاق واعمال کی نگرانی کرتے، غلطی پر ٹوکتے اور طالب علم کو علم کے حصول کے ساتھ عمل پر بھی ابھارتے تھے۔ ان کا اپنا کردار ،رویہ اور برتاؤ ایسا ہوتا کہ وہ خود طلبہ کے لیے مشعل راہ بن جاتے۔
محض تشخیص نہیں تجویز بھی
ہمارے اکابر میں قطب الارشاد شیخ الحدیث حضرت مولانا محمدزکریا قدس سرہ العزیز کے تخیلات اور توقعات کا مسکن ہی مدرسہ بن گیا تھا، آپ کی” آپ بیتی“ آپ کے مکتوبات اور مضامین میں جابجا مدارس کے نظام کے حوالے سے دلی کڑھن اور تشویش آشکاراہوتی ہے۔آپؒ نے محدث العصر حضرت مولانا محمد یوسف بنوری نوراللہ مرقدہ کے نام اس سلسلے میں ایک طویل مکتوب ارسال فرمایا: جسے یہاں نقل کیا جاتا ہے:
”مدارس کے روز افزوں زوال، طلبہ کی دین سے بے رغبتی، بے توجہی اور لغویات میں اشتغال کے متعلق کئی سال سے میرے ذہن میں یہ ہے کہ مدارس میں ذکر اللہ کی بہت کمی ہوتی جارہی ہے، بلکہ معدوم، بلکہ اس لائن سے تو بعض میں تنفر کی صورت دیکھتا ہوں، جو میرے نزدیک بہت خطرناک ہے، ہندوستان کے مشہور مدارس دارالعلوم دیو بند، مظاہر العلوم، شاہی مسجد مراد آباد، وغیرہ کی ابتدا جن اکابر نے کی تھی وہ سلوک میں امام الائمہ تھے، ان ہی کی برکات سے یہ مدارس ساری مخالف ہواوٴں کے باوجود اب تک چل رہے ہیں۔ میں اس مضمون کو کئی سال سے اہل مدارس، منتظمین اور اکابرین کی خدمت میں تحریراً اور تقریراً کہتا اور لکھتا رہا ہوں، میرا خیال یہ ہے کہ آپ جیسے حضرات اس کی طرف توجہ فرمائیں تو مفید اور موٴثر زیادہ ہوگا، مظاہر العلوم میں تو میں کسی درجہ میں اپنے ارادہ میں کام یاب ہوا ہوں اور دارالعلوم کے متعلق جناب الحاج قاری محمد طیب صاحب سے بار بار تقریراً و تحریر اًعرض کرچکا ہوں اور بھی اپنے سے تعلق رکھنے والے اہل مدارس کو متوجہ کرتا رہتا ہوں، مدارس کے روز افزوں فتنوں سے بہت ہی طبیعت کو کلفت پہنچتی ہے، میرا خیال یہ ہے کہ فتنوں سے بچاوٴ کی صورت صرف ذکر اللہ کی کثرت ہے، جب اللہ کا نام لینے والا کوئی نہ رہے گا تو دنیا ختم ہوجائے گی، جب اللہ تعالیٰ کے پاک نام میں اتنی قوت ہے کہ ساری دنیا کا وجود اسی سے قائم ہے تو مدارس بے چارے ساری دنیا کے مقابلہ میں دریا کے مقابلہ میں قطرہ بھی نہیں، اللہ تعالٰی کے پاک نام کو ان کی بقا اور تحفظ میں جتنا دخل ہوگا وہ ظاہر ہے، اکابر کے زمانہ میں ہمارے یہ جملہ مدارس میں اصحاب نسبت و ذاکرین کی کثرت جتنی رہی ہے وہ آپ سے مخفی نہیں اور اب اس میں جتنی کمی ہوگئی ہے، وہ بھی ظاہر ہے، بلکہ اگر یوں کہوں کہ اس پاک نام کے مخالف حیلوں بہانوں سے داخل ہوتے جارہے ہیں، تو میرے تجربہ میں غلط نہ ہوگا۔ اس لیے میری تمنا ہے کہ ہر مدرسہ میں کچھ ذاکرین کی تعداد ضرور ہوا کرے، طلبہ کے ذکر کرنے کے تو ہمارے اکابر بھی خلاف رہے ہیں اور میں بھی موافق نہیں، لیکن منتہی طلبہ یا فارغ التحصیل یا اپنے سے یا اکابرین سے تعلق رکھنے والے ذاکرین کی کچھ تعداد مدارس میں علی التبادل ضرور ہوا کرے اور مدرسہ ان کے قیام کا کوئی انتظام کردیا کرے، مدرسہ پر طعام کا بار ڈالنا تو مجھے بھی گوارا نہیں کہ طعام کا انتظام تو مدرسہ کے اکابر میں سے کوئی شخص ایک دو اپنے ذمہ لے لے یا باہر سے مخلص دوستوں میں سے کسی کو متوجہ کرکے ایک ایک ذاکر کا کھانا اس کے حوالہ کردے، جیسا کہ ابتدا میں مدارس کے طلبہ کا انتظام اسی طرح ہوتا تھا، البتہ اہل مدارس ان کے قیام کی کوئی صورت اپنے ذمہ لے لیں، جو مدرسہ میں ہو اور ذکر کے لیے کوئی ایسی مناسب شکل تجویز کریں کہ طلبہ کا کوئی حرج نہ ہو، نہ سونے والوں کا، نہ مطالعہ کرنے والوں کا۔ لہٰذا میری تمنا ہے کہ ہر مدرسہ میں دو چار ذاکرین مسلسل ضرور رہیں کہ داخلی اور خارجی فتنوں سے بہت سے امن کی امید ہے، ورنہ مدارس میں جو داخلی و خارجی فتنے بڑھتے جارہے ہیں، اکابر کے زمانے سے جتنا بُعد ہوتا جائے گا ان میں اضافہ ہی ہوگا۔“
(اقرا ڈائجسٹ ،قطب الاقطاب شیخ الحدیث نمبر،طبع جدیدستمبر2020ء ، دارالاشاعت کراچی)
مفتی اعظم پاکستان حضرت مولانامفتی محمدرفیع عثمانیؒ نے علماء وطلبہ کی ایک مجلس میں تزکیہ باطن کی طرف توجہ دلاتے ہوئے فرمایا:
”بہت سے طلبہ فارغ التحصیل ہونے کے بعد کسی بزرگ کی خدمت، کسی شیخ اور مرشدکی خدمت اور صحبت میں رہ کر اپنی تربیت نہیں کراتے … توخوب سمجھ لیجیے کہ جوعالم دین تزکیہ باطن سے محروم ہو وہ امت کے کسی کام نہیں آسکتا۔ اور خود اس کے لیے بھی اس کاعلم کافی نہیں۔ عالم دین کے لیے تزکیہ باطن ایک بنیادی شرط ہے۔ وہ صرف کتابیں پڑھنے سے نہیں ہوتا۔ آپ کتاب الرقاق پڑھ لیجیے ، کتاب الایمان پڑھ لیجیے، اعمال باطنہ اور تصوف کی کتابوں کامطالعہ کرلیجیے اور تمام ائمہ تصوف کی کتابوں کو پڑھ جائیے اور حفظ کرلیجیے لیکن اگر کسی شیخ کامل کی خدمت میں رہ کراپنے باطن کی ا صلاح اور تربیت نہیں کروائی تو اصلاح نہیں ہوگی،فقہ باطن حاصل نہیں ہوگا اور آپ کا علم امت کے کام نہیں آئے گا۔“
(”علماء کے تین فرائض منصبی“۔سہ ماہی حسن تدبیر(مدارس نمبر)فروری2011ء)
شیخ الحدیث حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی دامت برکاتہم العالیہ دینی مدارس میں نہ صرف اس ضرورت پرتوجہ دلاتے ہیں، بلکہ عملی تجاویز بھی بتاتے ہیں ؛آپ فرماتے ہیں:
”یہی حال تصوف اور اخلاق کا ہے کہ اس کو باقاعدہ درس میں اس لیے شامل نہیں کیا گیا کہ مدارس کا ماحول بذات خود اخلاق و طریقت کی عملی تربیت کرتا تھا اور باقی ماندہ کسر ذاتی مطالعہ اور کسی مرشد کے تعلق سے پوری ہوجاتی تھی؛ لیکن اب ضروری معلوم ہوتا ہے کہ تصوف اور اخلاق کی کتب باقاعدہ داخل درس ہوں، اس مقصد کے لیے حضرت امام غزالی کی ”ہدایة الہدایة“ اور ”اربعین“ ”احیاء العلوم“ کے منتخب حصے، حضرت امام سہروردی کی ”عوارف المعارف“ حکیم الامت حضرت تھانویؒ کی ”التکشف“ اور التشرف“ وغیرہ مختلف درجات میں رکھی جاسکتی ہیں۔“ (درس نظامی کی کتابیں کیسے پڑھیں اور پڑھائیں!: 53)
دوسری جگہ فرماتے ہیں:
” مدارس کے نصاب و نظام کا جائزہ لیتے وقت ہمارے نزدیک سب سے اہم ضرورت یہ ہے کہ مدارس کی روح کے احیاء کی فکر کی جائے، اس روح کے احیاء کا تعلق اصل میں تو اہل مدارس کی قلبی لگن سے ہے، لیکن اس سلسلے میں چند عملی تجاویز درج ذیل ہیں:
1… تمام مدارس میں تصوف و احسان کو باضابطہ نصاب کا جز بنایا جائے۔
2… اساتذہ و طلبہ پر لازم ہے کہ وہ ہفتے میں کم از کم ایک مرتبہ جمع ہوکر بزرگانِ دین اور بالخصوص اکابر علمائے دیو بند کے حالات و ملفوظات کا اجتماعی طور پر مطالعہ کریں، اس میں حضرت تھانویؒ کی ”ارواح ثلاثہ“ ”تذکرة الرشید“ ”حیات قاسمی“ ”تذکرة الخلیل“ ”حیات شیخ الہند“ ”اشرف السوانح“ اور حضرت شیخ الحدیثؒ کی ”آپ بیتی“ کا اجتماعی مطالعہ خاص طور پر مفید ہوگا۔
3… ہر مدرسہ کے اساتذہ اور مہتممین کے لیے کسی شیخ طریقت سے باقاعدہ اصلاحی تربیت کا تعلق قائم کرنا ضروری سمجھا جائے اور اساتذہ کے تقرر اور ترقی وغیرہ میں ان کے اس پہلو کو بطورِ خاص نظر میں رکھا جائے۔
4…جس مدرسہ کے قریب کوئی صاحب ارشاد بزرگ موجود ہوں وہاں کے اساتذہ اور طلبہ ان کی صحبت و خدمت غنیمت کبریٰ سمجھ کر اختیار کریں اور کبھی کبھی مدرسے میں ان کی اجتماعی وعظ و نصیحت کا اہتمام کیا جائے۔ “ (درس نظامی کی کتابیں کیسے پڑھیں اورپڑھائیں؟،ص:47، مکتبة السعدکراچی)
شیخ الحدیث حضرت مفتی تقی عثمانی دامت برکاتہم العالیہ کا یہ جملہ کہ: ”تمام مدارس میں تصوف و احسان کو باضابطہ نصاب کا جزء بنایا جائے۔“ اس تحریرکا اصل مدعا ہے۔ آپ کا تجویز کردہ لائحہ عمل کوئی تخیلاتی چیز نہیں، بلکہ اس پر نہایت آسانی سے عمل کیا جاسکتا ہے ۔اگرچہ سلاسل طریقت کے تنوع کے باعث اس باب میں ذوق مختلف ہیں، مگر بنیادی نکتہ کہ ’مدارس میں تزکیہ واحسان یا سلوک وتصوف کی مجالس کا اہتمام‘… اس میں ان شاء اللہ کوئی اختلاف نہیں ہوگا ۔ اگر مدارس میں اس طرح کی مجالس کا اہتمام کرلیا گیا اور ایک عمومی فضا قائم ہوگئی تو ان شاء اللہ فارغ التحصیل ہونے والے طلبہ جب تحریر وتصنیف ،تبلیغ وتدریس اور وعظ وارشاد کے میدانوں میں قدم رکھیں گے تو ان کے کام کا انداز ہی مختلف ہوگا۔
خیال رہے کہ یہ طلبہ ہمارے ہاتھوں میں ” کالمیت فی ید الغسال“ کے درجے میں ہیں۔ خیر خواہی، دل سوزی ، حکمت اور اخلاص کے ساتھ ان عزیز طلبہ پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ آج جب کہ زمانے کی رفتار نہایت تیز ہوچکی ، اخلاق کو پراگندہ کرنے اور ذہنوں کو ورغلانے کے اسباب عام ہوچکے ہیں ، دینی مدارس کے طلبہ کو صلاح وفلاح سے دورکرنے، انہیں اسلاف کی راہ سے ہٹاکر ’جدید تقاضوں ‘ کے پیچھے لگانے کے لیے باقاعدہ انجمنیں اور سوسائٹیاں وجود میں آچکی ہیں، ایسے دور میں دینی مدارس میں نظام تربیت اور تزکیہ وسلوک کی اہمیت پہلے سے بڑھ کر ہے… یقینا یہی وہ راستہ ہے جس کے ذریعے اپنے دین پر یقین واذعان اور اعتماد پیدا کرکے اسلاف بیزاری، آزاد رَوی اور فتنوں کی یلغار کو روکا جا سکتاہے۔ اس کے لیے ہمارے اکابر علماء نے جو لائحہ عمل تجویز فرمایا ہے اس سے ضرور استفادہ کرنا چاہیے؛ اور اپنے مدارس میں اسے رائج کرنے کی کوشش کرنی چاہیے، اللہ تعالیٰ ہماراحامی وناصرہو…۔ آمین
حرمة سید الاولین والآخرین صلی اللہ علیہ وسلم۔