مدارس کے طلبہ و طالبات کی خدمت میں

عزیزطلبہ و طالبات!علوم دینیہ کی نرسریوں میں قدم رکھنے پر ہم آپ کو دل کی گہرائیوں سے مبارک باد پیش کرتے ہیں اور دعاگو ہیں کہ اللہ تعالیٰ آپ کو علوم نبوت میں سے وافر حصہ عطا فرمائے اور آپ کے والدین اور سرپرستوں کو اس مادیت کے دور میں آپ کو دینی علوم کی تحصیل کے لیے، جس میں بظاہر دنیوی اعتبار سے کوئی نقد فائدہ ہے اور نہ ہی کسی روشن و درخشاں مستقبل کی اس دنیا میں امید، فارغ کرنے پر، جو یقینا مجاہدے سے کم نہیں، جزاء خیر عطا فرمائے اور ان کے رزق میں برکتیں، وسعتیں اور کشادگیاں عطا فرمائے، آمین۔
آپ کے والدین  نے یہ مجاہدہ صرف اس لیے برداشت کیا ہے تاکہ آپ ان کے لیے ذخیرہ ٔآخرت بن سکیں۔ انہوں نے احادیث میں پڑھ اور سُن رکھا ہے کہ ایک عالم دین ایسے سینکڑوں لوگوں، جن پر ان کی بداعمالیوں کی وجہ سے جہنّم واجب ہوچکی ہوگی، کی شفاعت کرکے انہیں اپنے ساتھ جنت میں لے جائے گا۔ وہ اسی شفاعت کی امید میں اتنا بڑا مجاہدہ کررہے ہیں ۔انھوں نے احادیث میں یہ بھی سن رکھا ہے کہ باعمل حافظِ قرآن کے والدین کو قیامت کے دن ایسا تاج پہنایا جائے گا، جس کی روشنی کے آگے سینکڑوں سورج کی روشنی بھی ماند اور ہیچ ہے، وہ اس اعزاز کی امید رکھتے ہیں، انہیں عزت و کرامت کے اس تاج کی بارگاہِ الٰہی سے امید ہے جو حافظ ِ قرآن کے ماں باپ کو پہنایا جائے گا۔ وہ چاہتے ہیں کہ ان کے بچے کے قدموں کے نیچے بھی فرشتے اعزاز و اکرام کے طور پر اپنے پر بچھائیں ۔یہ ہیں وہ امیدیں، آرزوئیں اور امنگیں جن کے حصول کے لیے انھوں نے آپ کو دینی مدارس میں بھیجا ہے۔ اگر یہ باتیں ہر وقت آپ کے دل ودماغ میں موجود اور ذہن میں مستحضر ہوں گی، تو ان شاء اللہ! آپ اپنے شب و روز کا ہر لمحہ اس احتیاط سے گزاریں گے، کہ ان اعزازات کے نہ صرف خود مستحق بن سکیں گے بلکہ اپنے والدین اور سرپرستوں کی امنگوں پر بھی پورا اترسکیں گے۔ اللہ تعالیٰ آپ کا حامی وناصر ہو۔آمین!

ذیل میں اکابر کے تجربوں اور نصائح کی روشنی میں آپ کی خدمت میں ایک دستورُ العمل پیش کرنے کی سعی کی ہے، جس کے مطابق اپنے شب و روز گزارنے کی آپ میں سے ہر طالب ِ علم کو، چاہے وہ قرآن مجید حفظ و ناظرہ کا طالبِ علم ہو، یا تجوید و قرأت کا، یادرسِ نظامی کے کسی بھی درجے کا طالبِ علم ہو۔

سب سے پہلی چیز ہمیشہ یہ بات ذہن نشین رکھیں، کہ آپ علوم ِنبوت حاصل کر رہے ہیں، یہ کوئی مادی علم نہیں بلکہ روحانی علم ہے اور روحانیت کے حصول کے لیے آپ کا ظاہری و باطنی طور پر ہر قسم کی گندگیوں اور غلاظتوں سے پاک صاف ہونا ضروری ہے کیونکہ میلے کچیلے، گندے اور گدلے برتن اس لائق نہیں ہوتے کہ ان میں کوئی صاف ستھری چیز ڈالی جائے۔ آپ کے لباس کا جس طرح ظاہری گندگی و نجاست سے پاک ہونا ضروری ہے، اسی طرح آپ کی آنکھوں، آپ کے کانوں، آپ کی زبان کا بھی گناہوں کی گندگی و غلاظت سے پاک صاف ہونا ضروری ہے۔ موبائل اور انٹرنیٹ کے فتنے کے اس دور میں نظر، شنوائی اور کلام کی پاکی یقینا مجاہدے کی بات ہے، لیکن علوم ِ نبوت کا نور اپنے باطن میں اتارنے کے لیے آپ کو یہ مجاہدہ کرنا ہوگا، اسکے بغیر اللہ کا نور نہیں ملے گا۔ اس حقیقت کو امام شافعی ؒ رحمہ اللہ نے چند اشعار میں بڑی جامعیت سے بیان کیا ہے،جن کا لبّ لباب یہ ہے کہ:
’’میں نے اپنے استادِ محترم حضرت وکیع رحمہ اللہؒ سے حافظے کی کمزوری کی شکایت کی، تو انہوں  نے مجھے وصیت کی: گناہ چھوڑدو، اس لیے کہ یہ علم اللہ تعالیٰ کا نور ہے اور اللہ تعالیٰ کا نور گناہ گار کو نہیں ملتا۔ جس علم کے حصول کے دوران گناہوں سے پرہیز کی کوشش نہیں کی جاتی، وہ علم کبھی پائیدار نہیں بنتا، اگر حاصل ہو بھی جائے تو کارآمد نہیں بنتا بلکہ بسا اوقات ایسا علم گمراہی کا بھی باعث بن جاتا ہے۔‘‘
حدیث پاک میں ہے: علم عمل کو آواز دیتا ہے۔ اگر کسی سینے میں علم ہو مگر وہ جسم عمل سے خالی ہو، تو وہاں سے علم بھی رخصت ہو جاتا ہے۔ یہ بات بھی یاد رکھیں، کہ شیطان آپ کے دل میں یہ وسوسہ ڈالنے کی کوشش کرے گا کہ ابھی تو تعلیم پر توجہ دو، عمل کے لیے بہت وقت پڑا ہے، بعد میں عمل بھی کرلینا۔ اکابر  نے اپنے تجربات کی روشنی میں یہ بات لکھی ہے کہ جو طالب علم دورانِ طالب علمی عمل کی عادت نہیں ڈالتا اور گناہوں سے اجتناب نہیں کرتا، فراغت کے بعد بھی اسے عمل کرنے اور گناہوں سے بچنے کی توفیق نہیں ملتی کیونکہ مدرسے و جامعہ کی مثال ماں کے پیٹ کی سی ہے، جس میں بچے کا جسم بنتا ہے۔ جو بچہ ماں کے پیٹ سے ناقص الاعضاء پید اہو، دنیا بھر کے ڈاکٹر مل کر بھی اس کے اس نقص کو دور نہیں کرسکتے، اسی طرح جو طالب علم مدرسے وجامعہ کے ایمانی و نورانی اور علمی و روحانی ماحول میں رہ کر خود کو نیک عمل کا خوگر اور گناہوں سے بچنے کا عادی نہیں بنا لیتا، وہ بعد میں دنیا کے مادیت بھرے ماحول میں بھی اس جوہر سے محروم ہی رہ جاتا ہے۔الّاماشاء اللہ!

اپنے اساتذہ ٔ کرام، مدرسے و جامعہ کے منتظمین اور دیگر عملے کا ادب واحترام کریں۔ اس میں کسی قسم کی کوتاہی نہ برتیں۔ اسی طرح کتاب، کاپی، تپائی اور ڈیسک، تختہ سیاہ، کمرۂ جماعت، رہائشی کمرہ یہ سب بھی آپ کے حصول ِ علم میں ممدّ و معاون ہیں۔ ان تمام آلاتِ علم کا احترام کریں۔ حتی الامکان باوضو حالت میں کتاب کا مطالعہ و تکرار کریں، صبح کمرۂ جماعت میں بیٹھنے سے پہلے وضو کرلیا کریں، استاد اور کتاب کے سامنے آلتی پالتی مار کر، یا کسی بھی ایسی ہیئت میں نہ بیٹھیں جو ادب کے خلاف ہو، بلکہ مؤدّب بیٹھنے کی کوشش کریں۔ دورانِ درس ہاتھ میں موجود پینسل اور قلم وغیرہ سے کھیلنا، بار بار گھڑی دیکھنا، اِدھر ادھر متوجّہ ہونا، بات چیت کرنا، اپنے لباس اور جسم کے ساتھ کھیلنا، یہ تمام امور بے توجّہی اور بے ادبی کے زمرے میں آتے ہیں، ان سے حتی المقدور بچنے کی کوشش اور اہتمام کریں ۔
ً درس کو پُوری توجّہ سے سننا، اگلے سبق کا پہلے سے مطالعہ کرنا، پڑھے ہوئے سبق کا تکرار کرنا، جو سمجھ میں نہ آئے وہ اپنے دوسرے ہم جماعت احباب اور اساتذۂ کرام سے پُوچھنا… یہ وہ امور ہیں، جن کی آپ کو روزِ اوّل سے پابندی کرنی ہے۔ اس میں کوئی وقفہ یاسُستی نہ ہونے پائے۔
عام طور پر طلبہ شروع میں سُستی کرتے ہیں، یوں اُن پر اسباق کا اچھا خاصا بار پڑتا ہے، پھر رات بھر بیٹھ کر پڑھنے سے بھی وہ اسباق قابو میں نہیں آتے۔ اس کوتاہی سے بچنے کی فکر پہلے دن سے ہی ہونی چاہیے جس کا طریقہ یہی ہے کہ چاہے اساتذہ یاد کرنے کے لیے کہیں یا نہ کہیں، سبق سُنیں یا نہ سُنیں، آپ اپنا سبق روزانہ کی بنیاد پر یاد کریں، مشقوں کو روزانہ کی بنیاد پر حل کریں، مطالعہ روزانہ کی بنیاد پر کریں، دیا ہوا کام روزانہ کی بنیاد پر کریں۔ ہوسکے تو ہفتے بھر کا پڑھا ہوا سبق جمعرات کے دن، جب شام کو تکرار مطالعے کی ترتیب نہیں ہوتی، اپنے طور پر دُہرالیں۔ اگر آپ نے اس دستورُ العمل پر مواظبت اختیار کیے رکھی، تو آپ کو کسی امتحان اور ٹیسٹ و جائزہ امتحان کی کوئی فکر ہوگی، نہ کسی قسم کا ڈر خوف۔ اس طرح آپ کا سبق بھی پُختہ سے پُختہ تر ہوتا جائے گا۔ جو سبق استاد کے سننے یا جائزہ و امتحان کے ڈر سے ’’آئی بلا ٹالنے‘‘ کی غرض سے یاد کیا جاتا ہے، وہ پائیدار نہیں ہوتا، جلد حافظے سے محو ہو جاتا ہے۔ اس کامشاہدہ حفّاظِ کرام کو دیکھ کر بہ خوبی کیا جاسکتا ہے۔ جو حفّاظ سال بھر اپنی منزل یاد کرنے اور اُسے نوافل میں پڑھنے کا اہتمام کرتے ہیں، انہیں رمضان المبارک میں تراویح میں قرآن پاک سنانے کے لیے کوئی اضافی محنت نہیں کرنی پڑتی، بلکہ ایک دو بار تلاوت کافی ہوجاتی ہے، اس کے برعکس جو حفّاظ سال بھر قرآن مجید سے لاتعلق رہتے، اپنی منزل یاد کرنے اور اُسے نوافل میں پڑھنے کا اہتمام نہیں کرتے، ان کو تراویح میں قرآن پاک سنانے کے لیے انتہائی محنت کرنی پڑتی ہے۔ اپنے تمام معمولات کی کلّی یا جزوی طور پر قربانی دینی پڑتی ہے، حفظ کی درس گاہ میں بیٹھنا پڑتا ہے، اس کے باوجود ان کی اغلاط اوّل الذکر حفّاظ کے مقابلے میں زیادہ آتی ہیں۔ اسی پر پابندی سے اسباق کو یاد کرنے والے اور صرف امتحان کے لیے اسباق کو یاد کرنے والے طلبہ کی حالت کو قیاس کیا جاسکتاہے۔

یاد رکھیے! خدمت سے خُدا ملتا ہے، اپنے اساتذہ کی خدمت کے مواقع تلاش کریں اور خدمت کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہ دیں۔اسی طرح مدرسے و جامعہ کی خدمت کا کوئی بھی موقع آجائے، مثلاً: قربانی کے ایّام میں کھالیں جمع کرنا، گوشت کی تقسیم یا اس کے علاوہ بھی مدرسہ و جامعہ جو بھی خدمت آپ کے سپرد کرے، اس کی بجاآوری اپنی ذمے داری سمجھ کرکریں، چاہے اس میں کوئی مالی و مادی فائدہ نظر آئے یا نہ آئے۔ بڑوں کی دعاؤں سے بڑھ کر کوئی سرمایہ نہیں، لہٰذا ان کی دعائیں لینے کی کوشش کریں اور خدمت بھی دعائیں لینے کا ایک مؤثر ذریعہ ہے۔

دینی علم بھی آپ سے وقت اور محنت مانگتا ہے۔ اگر آپ نے اپنے قیمتی وقت کی قدر نہ کی بلکہ اسے لایعنی کاموں، سیاسی بحثوں، موبائل و انٹرنیٹ بینی، فضول گپ شپ اور آوارہ گردی کی نذر کردیا، تو آپ کا علم کبھی بھی پُختہ نہیں ہوسکتا۔ امام ابویوسف رحمہ اللہؒ کا قول ہے: آپ علم کو اپنا سب کچھ دیں گے، توعلم آپ کو اپنا تھوڑا بہت حصہ دے گا۔‘‘
شیطان کی کوشش ہوگی کہ آپ کو لایعنی کاموں، باتوں، مشاغل میں لگائے تاکہ آپ کا وقت علم دین کے حصول کے بجائے کہیں اور صرف ہو۔ اس شیطانی چال کا مقابلہ بھی اوّل روز سے کرنا ہے۔ اس کا نسخہ یہ ہے کہ آپ اپنی حیثیت اور مقام پہچان لیں ۔آپ کوئی عام انسان نہیں۔ اللہ و رسول کے مہمان ہیں۔ آپ نے علوم ِ نبوّت کو حاصل کرنے کے لیے اپنا گھر بار، عزیز و اقارب اور دوست احباب، نیز گھر کی تمام آسائشوں کو چھوڑا ہے۔ جب یہ بات مستحضر رہے گی، تو ان شاء اللہ! آپ اپنا ایک ایک لمحہ اپنے اصل مقصد کے حصول کے لیے صرف کرنے کی کوشش کریں گے اور لایعنی سے بچ جائیں گے۔
دھیان رہے کہ یہ کام بھی روز ِ اوّل سے کرنا ہے۔ اگر شروع میں سُستی کی، تو بعد میں نوبت یہ ہوگی کہ آپ تو کمبل کو چھوڑنا چاہیں گے مگر کمبل آپ کی جان نہیں چھوڑے گا۔ کوشش کیجیے! کہ یہ کمبل آپ کو چمٹنے ہی نہ پائے!
فرائض میں کسی قسم کی سُستی و کوتاہی نہ کریں، خاص طور پر جمعرات اور جمعے کے دن، جب آپ اپنے گھروں کو جاتے ہیں کیونکہ آپ کا عمل آپ کے والدین اور بہن بھائیوں، نیز دوست احباب میں عمل کا جذبہ بیدار کرنے کا ذریعہ بن سکتا ہے، آپ کے اندر آنے والی مثبت تبدیلی انہیں نہ صرف آپ سے بلکہ دینی مدارس و جامعات سے بھی خوش گمان کردے گی، اس کے برعکس آپ نے فرائض ہی میں سُستی کا ثبوت دیا، فجر کے وقت بھی سوتے رہے، قرآن پاک کی تلاوت بھی نہیں کی بلکہ جیسا گھر کا اور گلی محلے کا ماحول ہے، اسی کا حصہ بن گئے، ہوٹلنگ، آوارہ گردی، ٹی وی بینی وغیرہ میں مصروف رہے تو آپ کا یہ عمل نہ صرف آپ سے بلکہ ان دینی مدارس و جامعات سے بھی انہیں بدگمان کرسکتا ہے، جس کا سبب آپ بنیں گے اور یہ یقینا احسان فراموشی ہوگی کہ جن اداروں  نے آپ کی تعلیم و تربیت ہی نہیں، قیام و طعام تک کی ذمے داریاں بھی اس مہنگائی و گرانی کے دور میں بھی اپنے ذمے  لے رکھی ہیں، آپ ان کی نیک نامی کے بجائے بدنامی کا باعث بنیں ۔

طالبعلم کے لیے زیادہ نفلی روزے اور نمازیں اہم نہیں، البتہ اگر صحت اجازت دے اور تعلیم کا بھی حرج نہ ہو رہا ہو، تو غیر مؤکدہ سنتوں، اشراق، اوّابین اور تہجّد کی عادت ڈالیں، چاہے 2,2رکعات ہی پڑھ لیں، چاہے تہجد کی نماز تکرار و مطالعے سے فراغت کے بعد سونے سے پہلے ہی ادا کرلیں، اسی طرح اللہ تعالیٰ سے تعلق اُس کے در کا بھکاری بننے سے بڑھتا ہے، اس لیے دعاؤں کی عادت ڈالیں، خوب رو رو کر اور گڑ گڑا کر دعائیں مانگیں، رونا نہ بھی آئے تو رونے کی سی ہیئت ہی بنالیں، اس پر بھی اللہ تعالیٰ کو پیار آتا ہے۔

ایک عالم ِ دین اور دینی رہنما کے پاس اپنی بات عوام و خواص تک پہنچانے کے 2ذرائع ہیں۔ ایک تقریر و خطابت اور دوسرا تحریر ۔ ان دونوں میں مہارت کیلئے بھی زمانہ ٔ طالب ِ علمی میں ہی کوشش کرنی پڑتی ہے۔ جو طلبہ و طالبات یہ سوچتے ہیں کہ فراغت کے بعد یہ ملکہ حاصل کرلیں گے، وہ کماحقّہ ایسا نہیں کرپاتے، دینی مدارس وجامعات میں ہفتہ وار تقریری بزمیں ہوا کرتی ہیں، ان میں حصہ لیں، اچھا مقرر اور خطیب بننے کے لیے مقررین اور خطباء کی تقاریر و خطابات سننے کی عادت ڈالیں،  اس سے بولنے کا انداز آتا ہے، ان کی نقل کرنے کی کوشش کریں، انکی تقاریر یاد کرکے ان کے انداز میں مجمعے میں سنانے کی کوشش کریں، یوں آپ کے حوصلے بلند ہوں گے، جھجھک ختم ہوگی، اس کے بعد اپنا انداز بنانے اور خود تقریر تیار کرنے کی کوشش رفتہ رفتہ آپ کو ایک اچھا مقرر و خطیب بنادیگی۔ کسی کی لکھی ہوئی تقریر رٹنے اور اسکے نتیجے میں ملنے والی داد کو ہی اپنی منزل نہ سمجھ لیں۔
بچہ پہلے ماں باپ کے پیروں پر پیر رکھ کر چلتا ہے، اس کے بعد خود چلنا سیکھ جاتا ہے۔ آپ بھی کسی کے مرہونِ منّت رہنے کے بجائے ’’اپنی دنیا آپ‘‘ پید اکریں۔ بقول شاعر : اپنی دنیا آپ پید اکر، اگر زندوں میں ہے۔ اسی طرح ایک دینی رہنما و مقتدا کے لیے تحریری صلاحیت بھی ضروری ہے۔ جو پڑھیں، اس کا خلاصہ اپنے الفاظ میں لکھنے کی کوشش کریں ۔
روزنامچہ یعنی ڈائری لکھا کریں، اپنے اسباق کو یاد کرنے کے بعد زبانی لکھنے کی عادت ڈالیں۔ یہ 3 کام کرنے سے آپ کو ایک فائدہ تو یہ ہوگا کہ آپ کا خط نکھر جائے گا اور دوسرا فائدہ یہ ہوگا کہ آپ کو تحریر کا سلیقہ آجائے گا، جو مستقبل میں آپ کو ذرا سی مشق سے ایک اچھا مصنف و ادیب بنادے گا۔ ماضی کے اکابر کی تاریخ پڑھیں۔ ان میں سے ہر ایک صاحب تصنیف تھا لیکن انھوں  نے کوئی روایتی صحافت و تحریری کورس کیا تھا اور نہ ہی ادب و انشا میں ماسٹرز ڈگری کے حامل تھے۔ یہ ان کی زمانہ ٔ طالبِ علمی کی مشق ہی تھی، جس  نے ان سے اتنا بڑا تحریری کام کروایا۔

درسی کتابوں کے علاوہ غیر درسی کتابوں کے مطالعے کے لیے بھی وقت نکالیں، لیکن ہر رطب و یابس نہ پڑھیں۔ ابھی آپ کی دینی معلومات مستحکم نہیں، کچے اذہان کے کسی سے بھی متاثر ہونے کا خطرہ ہوتا ہے اس لیے منتخب مطالعہ کریں۔ اپنے ذوق اور اساتذہ کے مشورے سے کتابوں کا انتخاب کریں۔ مطالعہ محض وقت گزاری کے لیے نہیں بلکہ معلومات میں اضافے کے لیے کریں۔ معلومات کو معمولات میں بدلنے کی بھی سعی کرتے رہیں ۔

ان باتوں پر عمل کرکے آپ ایک اچھے طالبِ علم، مستقبل کے ایک کارآمد شہری اور مقتدا و پیشوا بن سکتے ہیں ۔
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ تمام طلبہ و طالبات کو ان باتوں پر عمل پیرا ہونے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین!

شیئر کریں

رائے

فہرست

اپڈیٹ شدہ

اشتراک کریں

سبسکرائب کریں

نئے اپڈیٹس بارے معلومات حاصل کریں۔ اپنا ای میل ایڈریس درج کریں اور سبسکرائب بٹن دبائیں۔ شکریہ

سوشل میڈیا

مشہور مدارس