وقت اللہ کی بڑی نعمت ہے۔ اس کو ضائع کرنا ایک طرح کی خودکشی ہے۔ فرق صرف اتنا ہے کہ خودکشی ہمیشہ کے لیے محروم کردیتی ہے اور تضییع اوقات ایک محدود زمانے تک زندہ کو مردہ بنادیتا ہے۔ جب تک انسان کی طبیعت دل ودماغ نیک اور مفید کاموں میں مشغول نہ ہوگا اس کا میلان ضرور بدی اور معصیت کی طرف رہے گا۔ پس انسان اسی وقت صحیح انسان بن سکتا ہے جب وہ اپنے وقت پر نگراں رہے۔ ہر کام کے لیے ایک وقت اور ہر وقت کے لیے ایک کام مقرر کرے۔ اگر کسی سے کہا جائے کہ آپ کی عمر میں سے دس پانچ سال کم کردیے گئے ہیں تو یقینا اس کو سخت صدمہ ہوگا؛ لیکن وہ معطل بیٹھا ہوا خود اپنی عمر عزیز کو ضائع کررہا ہے، مگر اس کے زوال پر اس کو کچھ افسوس نہیں۔ انسان کی کامیابی کا واحد علاج یہی ہے کہ اس کا وقت فارغ نہیں ہونا چاہیے۔
کتب بینی انسان کے وقت کو نہ صرف ضائع ہونے سے بچاتی ہے؛ بلکہ انسان کی غم خوار ومددگار، انسانی ضمیر کو روشنی بخشنے والا قندیل، علم وآگہی کا بہترین زینہ، تنہائی کی جاں گسل طوالت کی بہترین رفیق، زندگی کی نا ہموار راہوں میں دلنواز ہم سفر اور اضطراب وبے چینی کی معالج بھی ہے۔ جب انسان گردشِ زمانہ، زندگی کے تلخ واقعات اور ذاتی مشکلات کے ہجوم میں الجھ کر مایوس لمحات کے اندھیروں میں بھٹکتے ہوئے زندگی کی پرلطف نعمتوں سے بہرہ مند نہیں ہو پاتا تو اس وقت کتابی حروف کی سرگوشیاں سفید صفحات کے کالے پیلے نقوش اندھیروں میں روشنی لے کر ناامیدی میں امید کی کرن لے کر گم کردہ منزل کو راہیں سمجھاتی ہیں اور انسان تاریکیوں سے نکل کر روشنی میں آ جاتا ہے۔ اور اس روشنی میں اپنی شخصیت کو سمجھنے لگتا ہے۔ اپنی اچھائی اور برائی سے باخبر ہونے لگتا ہے۔ ڈاکٹر عائض القرنی ”لاتحزن“ میں لکھتے ہیں:
مطالعہ سے وسوسہ اور غم دور ہوتا ہے۔ ناحق لڑائی جھگڑے سے حفاظت رہتی ہے۔ فارغ اور بے کار لوگوں سے بچاؤ رہتا ہے۔ زبان کھلتی ہے اور کلام کاطریقہ آتا ہے۔ ذہن کھلتا ہے اور دل تندرست ہوتا ہے۔ علوم حاصل ہوتے ہیں۔ لوگوں کے تجربات اور علماء وحکماء کی حکمتوں کاعلم حاصل ہوتا ہے۔ دینی کتب کے مطالعہ سے ایمان تازہ ہوتا ہے۔ امام جاحظؒ مطالعہ کی وصیت کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ مطالعہ سے غم دور ہوتی ہے۔ آپ کی کتاب آپ کا سب سے اچھا دوست ہے جو کبھی آپ سے اکتاتا نہیں۔ نہ ہی جھوٹ بولتا ہے اور نہ ہی بے ایمانی کرتا ہے؛ بلکہ کتاب ایسا دوست ہے جو سراپا اخلاق ہے۔ جس سے جس قدر فائدہ اٹھایا جائے وہ خوش ہوتی ہے۔ کتاب کے ذریعہ آپ کی زبان فوائد اور حکمتوں سے بھرجائے گی۔ لوگوں میں آپ احترام کی نظر سے دیکھے جائیں گے۔ کتاب کے ذریعہ انسان حکمرانوں کا مشیر بن جاتا ہے۔ کتاب کے ذریعہ آدمی بہت کچھ حاصل کرسکتا ہے۔ کتاب سفر وحضر، رات دن آپ کو فائدہ دے گی اور کبھی تھکاوٹ اور بے چینی کا مظاہرہ نہ کرے گی۔ کتاب کے ذریعہ آدمی فضول مجلس آرائی سے بچ جاتا ہے اور لایعنی امور سے حفاظت رہتی ہے۔ (لاتحزن)
لوگوں کی آپسی دوستی کا نتیجہ فساد اور بگاڑ ہوا کرتا ہے، مگر کتاب کی دوستی سے روح کو تازگی اور طبیعت کو سرور حاصل ہوتا ہے۔ انسانی ذہن وفکر کی آبیاری ہوتی ہے، تہذیب و ثقافت کے عمدہ سانچے میں ڈھلنے کی ترغیب ملتی ہے۔ قوموں کے عروج و زوال کے اسباب معلوم ہوتے ہیں۔ تاریخ کی برگزیدہ شخصیتوں سے ملاقات ہوتی ہے اور ان کے تجربات سے استفادہ کا موقع ملتا ہے۔ پروفیسر محسن عثمانی ”کتابوں کے درمیاں“ میں تحریر فرماتے ہیں:
”مطالعہ دراصل دوسروں کے تجربات سے استفادہ کا اور تاریخ کی برگزیدہ شخصیتوں سے ملاقات اور ان کی گفتگو سننے کا نام ہے۔ سوانح عمریوں سے اور خاص طور سے خود نوشت سوانح سے اور سفرناموں سے ایک قاری بہت کارآمد معلومات حاصل کرسکتا ہے، کتابوں کے مطالعہ سے انسان کو اپنی کوتاہیوں اور کمزوریوں کا احساس ہوتا ہے۔ جسے وہ دور کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ کتابوں کے مطالعہ سے انسان کے شعور میں پختگی پیدا ہوتی ہے۔ اچھے اور بُرے کی پرکھ اور تنقید کی صلاحیت پیدا ہوتی ہے۔ کتابوں کے مطالعہ سے انسان میں فنی تخلیق کی استعداد پیدا ہوسکتی ہے اور انسان کائنات اور حیات کے مسائل کو زیادہ بہتر طور پر سمجھ سکتا ہے۔ کتابوں کے مطالعہ سے انسان آفاق وانفس کی نشانیوں کو بہتر طور پر جان سکتا ہے۔ اس سے وہ اپنے علم میں اضافہ کرتا ہے اور علم کے اظہار کے موٴثر طریقے دریافت کرتا ہے۔ ایک انسان جب کتب خانہ میں داخل ہوتا ہے اور کتابوں سے بھری ہوئی الماریوں کے درمیان کھڑا ہوتا ہے تو دراصل وہ ایسے شہر علم میں کھڑا ہوتا ہے جہاں تاریخ کے ہر دور کے عقلاء، علماء، اہل علم اور اہل ادب کی روحیں موجود ہوتی ہیں۔ اس شہر میں اس کی ملاقات امام غزالی، امام رازی، افلاطون، ارسطو اور ابن رشد سے لے کر دور جدید کے تمام اہل علم اور اہل قلم سے ہوسکتی ہے۔ کتب خانہ میں بیٹھ کر شاہ ولی اللہ دہلوی کی ”حجة اللہ البالغہ“ کا مطالعہ دراصل شاہ ولی اللہ دہلوی سے براہِ راست ملاقات اور استفادہ کا بدل ہے۔ کتاب وہ واسطہ ہے جس کے ذریعہ انسان ”حاضرات“ کے عمل کے بغیر اسلاف کی روحوں سے مل سکتا ہے․․․․ مطالعہ کے لیے صحیح کتابوں کا انتخاب ضروری ہے، کتابیں سمندر کے مانند ہیں۔ ضرورت اور ذوق کے مطابق کتابوں کا انتخاب کرنا چاہیے۔ اس میں کسی صاحب علم اور صاحب ذوق کی رہنمائی بھی اشد ضروری ہے۔ دل کے بارے میں جگر مرادآبادی کا شعر ہے:
کامل ر ہبر قا تل ر ہز ن
دل سا دوست نہ دل سا دشمن
جگرمرادآبادی نے دل کے بارے میں جو بات کہی ہے وہ کتاب پر اس سے زیادہ صادق آتی ہے، کتابیں انسان کو ساحل ہدایت تک پہنچاتی ہیں۔ کتابیں انسان کو گمراہی کے بھنور میں ڈبوتی بھی ہیں، کتابیں انسان کو گم کردہ راہ بھی بتاتی ہیں، وہ کامل رہبر بھی ہیں اور قاتل رہزن بھی ہیں (کتابوں کے درمیاں)
کتابوں کی اہمیت، ان کی حیثیت، عظمت اور افادیت ہرزمانے میں مسلم رہی ہے۔ ہر دور میں ایسے لوگ پیدا ہوتے رہے جنھوں نے کتابوں کو ہی اپنا اوڑھنا بچھونا بنایا۔ جن کے عظیم کارناموں کو دنیا ہمیشہ یاد رکھے گی۔ ایوب بن شجاع کہتے ہیں کہ میں نے اپنا غلام عبداللہ اعرابی کے پاس انھیں بلانے کے لیے بھیجا غلام نے واپس آکر کہا: میں نے انھیں اطلاع تو کردی ہے؛ لیکن وہ کہہ رہے تھے میرے پاس کچھ لوگ بیٹھے ہیں ان سے فارغ ہوکر آتا ہوں؛ حالاں کہ وہ کتابوں کے مطالعہ میں مصروف تھے، کتابوں کے سوا وہاں کوئی نہ تھا۔ کچھ دیر بعد عبداللہ آئے تو ایوب نے ان سے پوچھا: تمہارے پاس تو کوئی نہ تھا پھر تم نے غلام سے یہ بات کیسے کہہ دی؟ عبداللہ نے جواب میں چند اشعار پڑھے، جس کا ترجمہ یہ ہے:
ہمارے چند ہم نشیں ایسے ہیں جن کی باتوں سے ہم نہیں اکتاتے۔ موجودگی اور عدم موجودگی دونوں صورتوں میں ہم ان کے شر سے محفوظ رہتے ہیں اور ہمیں گذرے ہوئے لوگوں کے علم، عقل، ادب اور صحت رائے کافائدہ دیتے ہیں۔ نہ ان سے کسی فتنہ کا اندیشہ ہے اور نہ بری صحبت کا۔ اور نہ ہم ان کی زبان اور ہاتھ (کے شر) سے ڈرتے ہیں۔ انھیں مردہ کہنے کی صورت میں آپ کو جھوٹا نہیں کہا جاسکتا۔ اور اگر آپ انھیں زندہ کہیں تب بھی آپ کو غلط اور بے عقل نہیں کہا جاسکتا۔ (کتابوں کی درس گاہ میں)
اے کتاب: ہم تیری عظمت واہمیت کو سلام کرتے ہیں اور تیری رفاقت ودوستی اختیار کرنے کا عزم مصمم کرتے ہیں، کیونکہ:
سُرورِ علم ہے کیفِ شراب سے بہتر
کوئی رفیق نہیں ہے کتاب سے بہتر