احساس کمتری میں مبتلا شخص اپنے آپ کو نکما، ہر فیلڈ میں ناکام، اور کمزور سمجھتا ہے، اپنی قدر اور منزلت کا ادراک نہیں کر پاتا۔ جبکہ متکبر اور مغرور شخص اپنے آپ کو ہر ایک سے بہتر با صلاحیت، با کردار جانتا ہے، چادر سے بڑٖھ کر پاؤں پھلاتا ہۓ دوسروں کی تحقیر اور تمسخر پر اتر آتا ہے اور پُر اعتماد شخص اپنی صلاحیتوں کو سمجھتا ہے، اسے ہر مناسب موقع پر استعمال کرتا ہے، جب بات کرتا ہے تو مخاطب کے شخصی دباؤ کو قبول کیے بغیر اپنا مدعا دو ٹوک الفاظ میں بیان کرتا ہے. کسی سے ملتا ہے تو نظریں جھکا کر نہیں ملتا، بلکہ نظریں ملا کر گرم جوشی سے ملتا ہے، ہیئت وحرکات (باڈی لینگویج) سے کمزوری کا پہلو ظاہر نہیں ہوتا۔
یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ دینی مدارس شرعی علوم کے محافظ ہیں ، حب الوطنی وفاداری کے قلعہ ہیں ، یہ ایک چشمہ ہے جس سے سماج کے بارے لوگ اپنے کشت ایمانی کی ابیاری کرتے ہیں، یہ مدارس معاشرے میں ایک اکلوتا لو کی مانند ہیں ، جس سے لوگ اپنے چراغ روشن کرتے ہیں ، اس کے آغوشِ تربیت میں پل کر ایسے علماء فضلاء سیاسی، سماجی، قومی و ملی قائدین نکلے جنہوں نے دین وملت کی گراں قدر خدمات کیں ۔ لیکن وقت کے ساتھ ساتھ داخلی اور خارجی بعض وجوہات کی بنیاد پر ان کی کارکردگی بھی متأثر ہوئے بغیر نہ رہی ۔
ان کی اس کارکردگی کو متاثر کرنے میں زیادہ تر اس روشن خیال قوت کا ہاتھ ہے جو کسی طرح مدارس سے اسلامی روح کو ختم کرنے کے درپے ہے۔
یہ روشن خیال طاقتیں مختلف وسائل کے ذریعے ان مدارس میں پڑھنے والے طلباء کے اندر احساس کمتری پیدا کرنے کی کوشش میں لگی ہوئی ہیں تاکہ ان کے اندر سے خود اعتمادی کی دولت کو ختم کی جائے۔ بظاہر یہ طاقتیں کچھ نہ کچھ اپنے ان منصوبوں میں کامیاب ہوئی ہیں، اور یہی وجہ ہے کہ ہمارے مدارس میں پڑھنے والے طلباء میں خود اعتمادی کا فقدان واضح طور پر محسوس کیا جاتاہے ، ان سے اپنی تعلیم سے اعتماد اٹھتا جارہا ہے ۔ ان میں سے غالب اکثریت مرعوبیت کاشکار ہیں، اکثر طلباء کسی کے سامنے ٹھیک طرح سے گفتگو بھی نہیں کرپاتے ہیں ۔
ان طلبہ کے اندر خود اعتمادی کے فقدان کے کئی اسباب ہوسکتے ہیں ، جن میں بچپن میں والدین اور بڑوں کا ان کے ساتھ رویہ ، گھریلو ، سماجی ، اقتصادی عوامل ، ذاتی صلاحیت وغیرہ ۔ لیکن ان عوامل کی تلافی کے لئے جدوجہد ایک ادارہ کے بس کا روگ نہیں ، اور غالباً ان عوامل کا اس کمزوری میں دخل انتہائی محدود ہوتا ہے ۔
چونکہ طلبہ کا اکثر وقت مدرسہ کی چاردیواری کے اندر گزرتا ہے ، اور مدارس ایک محض علمی تربیتی مرکز ہوتا ہے جس کا ہدف ہی مردم سازی ہے اس لئے اگر ان کی سیرت و کردار پر ان کی کار گزاری پر اگر قدغن آتا ہے، ان کی پرواز میں کوتاہی آئے تو اس کی ذمہ داری اس مردم ساز ادارے پر عائد ہوتی ہے کہ انہوں نے ان کی تعمیر سیرت میں تغافل برتا ہے ۔
مزید برآں ! کسی بھی تعلیمی ادارے میں طلبہ کی کمزوری کو دور کرنے کے لئے مختلف اسباب کا کھوج لگا کر مختلف وسائل کے ذریعے ان اسباب کے تدارک کےلئے وقتاً فوقتاً کوششیں ہوتی رہتی ہیں ۔ اس لئے اس مضمون میں بعض عوامل کی نشاندہی کرنے کی کوشش کی گئی ہے تاکہ ارباب مدارس اپنے طلبا ءمیں خود اعتمادی کو بحال کرنے پر توجہ دیں ، اور ان کی اندر سے احساس کمتری کے ناسور کو ختم کرنے کے لئے مثبت قدم اٹھاسکیں تاکہ عملی زندگی میں ان کے قدم نہ ڈگمگا سکیں ، اور ہر فورم پر ڈنکے کے چوٹ پر بات کرسکیں۔ اس المیہ میں جہاں عالمی میڈیا مختلف وسائل کے ہاتھ ہیں ،وہاں ذمہ داران مدارس اور اساتذہ کو برئ الذمہ نہیں قرار دیا جاسکتا ہے ، اکثر مدارس میں تعلیم پر زور دیا جاتا ہے ، لیکن ان کی تربیت پر اتنا اہتمام نہیں کیا جاتاہے ، جتنا اس کی ضرورت ہے ،تعلیمی سرٹیفیکٹس تو ہاتھ میں تھما دیتے ہیں لیکن خود اعتمادی کی دولت سے مالا مال نہیں کرتے جس کے بل بوتے پر وہ آن بان شان سے معاشرے میں جی سکیں ، ہر مضمون میں نناوے ، سو نمبر دے دیتے ہیں ، لیکن اسی مضمون میں کہیں انٹریو کے لیے بلایا جائے تو طالب علم پورے اعتماد کے ساتھ سوالات کے جوابات نہیں دے سکتے ۔
اس کی کیا وجوہات ہو سکتی ہے ، تعلیمی ذمہ داران کو اس جانب دھیان دینا ہوگا، تعلیم کے ساتھ تربیت کے پہلو پر خصوصی توجہ دینا ہوگی ۔امام مالک رحمہ اللہ کو جب ان کی ماں نے ربیعہ بن عبد الرحمن الرأی کے پاس حصول علم کےلیے بھیجا تو یہ نصیحت کی :
يا بني اذهب إلى ربيعة فتعلم من أدبه قبل علمه
بیٹا ربیعہ کی مجلس میں بیٹھے تو ان سے ادب کی تربیت پہلے لینا علم کو بعد میں حاصل کرنا۔
مدارس کے ذمہ داران کو ذرا سوچنا ہوگا کہ ہمارے طلبہ میں کسر نفسی کہاں سے آگئی ، اعتماد کافقدان کیوں کہاں سے سرایت کر آیا، اپنی تعلیم کی قدر ان کے دلوں میں کیوں نہیں ہے ،کسی بھی معیاری درسگاہ کی ذمہ داری صرف نصابی تعلیم دینا ہی نہیں بلکہ انکی ہر لحاظ سے تربیت بھی کرنا، تاکہ وہ سماج میں ایک فعال باکردار ممبر بن سکے۔
مدارس کے منتظمین اور مشرفین کی جانب سے طلبہ کو طعنے
طلبہ کے اندر احساس کمتری کی بنیادی وجہ مدارس کے مشرفین اساتذہ ، ذمہ داران کی جانب سے طلباء کی معمولی غلطی پر دئیے جانے والے طعنے ہیں ( تم زکاۃ کھاتے ہو پھر یہ کرتے ہو ، تم چندہ کے مال پر اتراتے ہو۔) ایسے طعنے اکثر وبیشتر مدارس میں طلباء کو دئیے جاتے ہیں، ایسے طعنوں سے ان کی نفسیات پر بم گرتے ہیں ، ان کی صلاحیتیں محدود ہوتی ہیں ،ان کے اندر یہ احساس سر اٹھاتا ہے کہ تم غریب ہو ، تم نادار ہو ،تم کچھ نہیں بن سکتے ،پھر ان کی ہمت پست ہوتی ہے ، نگاہیں کج ہوتی ہیں ۔ نظریں معمولی چیز پر ہوتی ہیں قومی وملی قیادت کے لئے کوشش کرنا چھوڑ دیتے ہیں.
حرم رسوا ہوا پیر حرم کی کم نگاہی سے
جوانان تتاری کس قدر صاحب نظر نکلے ۔
یہ درست ہے کہ ریاست نے دینی مدارس کے ساتھ تعاون نہ کرنے پر پاک وہند پر برطانوی سامراج کے بعد یہ مدارس اہل خیر کے تعاون سے چلتے ہیں ، جسے اساتذہ اور ارباب مدارس بھی مستفید ہورہے ہیں، لیکن اسے ایک طعنے کے طورپر استعمال کرنا طلبہ کے نفسیات پر جنگ مسلط کرنے کے مترادف ہے ۔ارباب تعلیم کے ذمہ داری ہے کہ طلباءکو یہ احساس دلایا جائے کہ ان کے مقاصدِ تعلیم قوم وملت کی ہر شعبہ میں راہنمائی ، دینی روایات و اقدار کو زندہ رکھنا ، رواداری کوفروغ دینا ، اور فکر ونظر کو بلند رکھنا ہے صرف قرآن خوانی ، سوالاکھ کا ورد کرنا ، نکاح خواں بننا نہیں ۔
حوصلہ افزائی کا فقدان
یہ انسانی فطرت ہے کہ جب اس کے کسی اچھے کام پر اس کی حوصلہ افزائی کی جائے ،اس کی معمولی کارکردگی پر کھل کر داد دی جائے تو اس کی صلاحیتوں میں مزید نکھار آتا ہے ،اس کااعتماد بڑھتاہے، مزید اچھی کارکردگی کےلئے محنت کرتاہے، اس کے برعکس اس کے ہر کئے پر نکتہ چینی ہو، اس کی کارکردگی کو مذاق بنایا جائے تو اس کے سارے شوق ٹھنڈے پڑھ جاتے ہیں اس کی ساری امیدیں ٹوٹ جاتی ہیں۔ کامیاب مربی اپنے تلامذہ کی ہمیشہ حوصلہ افزائی کرتا ہے، ایک دن سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے نبی کریم ﷺ کے اصحاب سے دریافت کیا کہ آپ لوگ جانتے ہو یہ آیت کس سلسلے میں نازل ہوئی ہے ۔
أَيَوَدُّ أَحَدُكُمْ أَنْ تَكُونَ لَهُ جَنَّةٌ ( البقرۃ : 266) "کیاتم میں سے کوئی یہ پسند کرتاہے کہ اس کاایک باغ ہو”
سب نے کہا اللہ تعالی زیادہ جاننے والا ہے یہ سن کر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ خفا ہوگئے اور فرمایا صاف جواب دیں کہ آپ لوگوں کو اس سلسلے میں کچھ علم نہیں، سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا: امیر المؤمنین! میرے دل میں ایک بات آتی ہے ۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا بیٹے ! تم بتادو اور اپنے آپ کو حقیر نہ سمجھو۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے عرض کیا کہ اس میں عمل کی مثال بیان کی گئی ہے ۔سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے پوچھا کیسے عمل کی؟ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے عرض کیا: کہ یہ ایک مالدار شخص کی مثال ہے جو اللہ کی اطاعت میں نیک عمل کرتا رہتاہے ، پھر اللہ شیطان کو اس پر غالب کر دیتاہے، وہ گناہوں میں مصروف ہو جاتاہے ، اور اس کے اگلے نیک اعمال سب غارت ہوجاتے ہیں ۔
ابن حجر رحمہ اللہ شرح کرتے ہوئے لکھتے ہیں اس اثر سے یہ معلوم ہوا کہ عالم دین کو اپنے باصلاحیت تلامذہ کو ان سے عمر میں بڑوں کی مجلس میں بات کرنے کی حوصلہ افزائی کرنی چاہیے، کیونکہ اسے ان کے علمی سرگرمی میں نکھار آتا ہے، اپنے اوپر اعتماد اور علمی رغبت بڑھتی ہے ۔
سوال کرنے پر داد دینے کے بجائے جھاڑ دینا، علمی نکتہ اٹھانے پر معلم کو خوش ہونے کے بجائے اپنے علمی قد پر ڈاکہ تصور کرنا
معلم انسانیت محمدرسول اللہ ﷺ جب اپنے پیارے اصحاب میں سے کوئی اچھا سوال کرتا تو داد دیتے تھے، اور ساتھ ساتھ دعا بھی کیا کرتے تھے، وہبی صلاحیتوں کی تعریف کرتے تھے۔
صحیح بخاری میں سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ انہوں نے اللہ کے رسول ﷺ سے عرض کیا یارسول اللہ! قیامت کے دن آپ کی شفاعت سے زیادہ سعادت کسے ملے گی؟ تو رسول اللہﷺ نے فرمایا اے ابوہریرہ مجھے یقین تھا کہ تم سے پہلے کوئی اس بارے میں مجھ سے دریافت نہیں کرے گا کیونکہ میں نے حدیث کے متعلق تمہاری دلچسپی دیکھ لی تھی۔ سنو! قیامت میں سب سے زیادہ فیض یاب میری شفاعت سے وہ شخص ہوگا جو سچے دل سے یا سچے جی سے لاالہ الااللہ کہےگا ۔( صحیح البخاری )
سیدنا ابو موسی الاشعری کی آواز بہت خوبصورت تھی آپ ﷺ نے ابو موسی ؓ سے مخاطب ہو کر فرمایا :
لَقَدْ أُوتِيَ أَبُو مُوسَى مِنْ مَزَامِيرِ آلِ دَاوُدَ "ابو موسى تجھے داود علیہ السلام جیسی بہترین آواز عطا کی گئی ہے”۔(صحیح البخاری:5048)
جب وفد عبد القیس اللہ کے رسول ﷺ سے ملاقات کے لئے تشریف لائے ان میں پیشانی پر زخم والا ایک شخص تھا انہیں اللہ کے رسول ﷺنے فرمایا:
إِنَّ فِيكَ خَصْلَتَيْنِ يُحِبُّهُمَا اللهُ: الْحِلْمُ، وَالْأَنَاةُ "تم ميں دو خوبیاں ہیں جنہیں اللہ تعالی پسند فرماتا ہے عقل و دانشمندی تحمل اور ٹھہراؤ۔ (صحيح مسلم1/ 48)
سفیان بن عیینہ الھلالی فرماتے ہیں: میں بیس سال کی عمر میں کوفہ میں داخل ہوا اور امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کی مجلس میں حاضر ہوا، میرے آنے پر امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ نے اپنے تلامذہ سے فرمایا: مکہ مکرمہ میں عمرو بن دینار کے علم کا حافظ اس کا تلمیذ رشید سفیان بن عیینہ آیا ہے کہ سارے لوگ آکر مجھے عمرو بن دینار کے متعلق پوچھنے لگے، ابن عیینہ کہتے ہیں : مجھے سب سے پہلے ابو حنیفہ نے محدث بنایا۔ (سیر اعلام النبلاء)
علمی کمزوری
علم و معرفت انسان کے اندر اعتماد، جرات، بہادری پیدا کرتا ہے، جبکہ جہل انسان کو بزدل، اور کمزور کرتا ہے۔ سورۃ النمل میں آتا ہے سیدنا سلیمان علیہ السلام نے پرندوں کا جائزہ لیا، اور فرمانے لگے یہ کیا بات ہے کہ میں ہدہد کو نہیں دیکھتا، کیا واقعی وہ غیر حاضر ہے؟ یقینا میں اسے سخت سزا دوں گا یا اسے ذبح کر ڈالوں گا یا وہ میرے سامنے کوئی صریح دلیل بیان کرے۔
فَمَكَثَ غَيْرَ بَعِيدٍ فَقَالَ أَحَطْتُ بِمَا لَمْ تُحِطْ بِهِ وَجِئْتُكَ مِنْ سَبَإٍ بِنَبَإٍ يَقِينٍ (النمل: ۲۰؍۲۲) "کچھ دیر نہ گزری تھی کہ آکر اس نے کہا میں ایک ایسی چیز کی خبر لایا ہوں کہ آپ کو اس کی خبر نہیں ہیں، میں سباء کی ایک سچی خبر آپ کے پاس لایا ہوں ۔”
ہد ہد ایک چھوٹا ساپرندہ ایک بادشاہ کے سامنے بڑی خود اعتمادی جرات سے بیان کرتاہے۔ أَحَطْتُ بِمَا لَمْ تُحِطْ بِهِ۔ اگر ہدہد کے پاس علم اور معرفت نہ ہوتی تو اس خود اعتمادی اور جرات کے ساتھ بادشاہ کے سامنے اس زبان میں بات نہیں کرسکتا تھا۔
ایک حکایت مشہور ہے: کسی استاذ کے سامنے ایک مسئلہ دریافت کیا گیا تو اس نے لاعلمی کا اظہار کیا، مجلس میں موجود ان کے کسی شاگرد رشید نے کہا مجھے اس بابت علم ہے، استاذ کو غصہ چڑھا، شاگرد کہنے لگے: استاذجی! آپ علم و فضل کی چوٹی پر پہنچے تب بھی سلیمان علیہ السلام کے علم و فضل کو نہیں پہنچے، میں جہالت کی آخری ڈگری پر پہنچوں تب بھی ہدہد سے جاہل نہیں ہوسکتا کیونکہ ہدہد آکے سلیمان سے کہتا ہے ” أَحَطْتُ بِمَا لَمْ تُحِطْ بِهِ” (مجھے ایسی چیز کے بابت خبر ملی ہے جس کا تمہیں علم نہیں) اس کے باوجود سلیمان علیہ السلام نے ہدہد کو زیر عتاب نہیں کیا۔ ( مفتاح دارالسعادۃ ، ۱؍ ۲۶۸)
جسے تیرنا نہیں آتا وہ سمندر میں اترنے سے ڈر جاتے ہیں۔ اسی طرح کوئی بھی طالب علم علمی کمزوری کا شکار ہو، اسے اپنے اوپر اعتماد نہیں ہوتا ہے، ہمیشہ جھجکتے رہتے ہیں اور یوں باوقار زندگی کی دوڑ میں بہت پیچھے رہ جاتے ہیں۔
رکھیو غالبؔ مجھے اس تلخ نوائی میں معاف
آج کچھ درد مرے دل میں سوا ہوتا ہے
ارباب مدارس کو اس جانب توجہ دینے کی ضرورت ہے، طلبہ کے اندر سے کھوئی ہوئی خود اعتمادی کو بحال کرنے کے لئے مختلف وسائل کو بروئے کار لانا چاہئے، اساتذہ، معلمین کے لئے تربیتی کورسز کا اہتمام ضروری ہے۔ کم از کم مہینہ میں ایک بار طلبہ کے عملی زندگی سے متعلق تجربہ کار اشخاص کے لیکچرز رکھنے کا بندوبست کرنا چاہئے تاکہ عملی زندگی کے خدوخال ان کے ہاں واضح ہو، اور اس کے لئے ازخود منصوبہ بندی کرنے کے لائق بن سکے۔