امام بخاری رحمہ الله نے صحیح بخاری میں ذکر کیا ہے کہ حضرت ابوہریرہ رضی الله عنہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ الله سبحانہ وتعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السلام کو ان کی صورت پر پیدا فرمایا، ان کا قد ساٹھ ہاتھ لمبا تھا، جب پیدا کر چکے تو فرمایا جاکر اس جماعت کو سلام کرو ( وہ فرشتوں کی جماعت بیٹھی ہوئی تھی) وہ جو ہدیہ تم کو دیں وہ سن لو، وہ تمہارا اور تمہاری اولاد کا ہدیہ ہے۔ حضرت آدم علیہ السلام نے ان کو السلام علیکم کہا، انہوں نے جواب میں وعلیک السلام ورحمة الله کہا، فرشتوں نے ” ورحمة الله“ کا اضافہ کیا، پس جو بھی جنت میں داخل ہو گا، وہ حضرت آدم علیہ السلام کی صورت پر ہو گا، اس کے بعد سے مسلسل لوگوں کے قد اب تک کم ہوتے چلے آرہے ہیں۔
علماء نے اس حدیث کی تشریح میں فرمایا کہ حدیث کے یہ الفاظ کہ ”جاکر اس جماعت کو سلام کریں اور جو ہدیہ دیں وہ سن لیں“ میں اس بات پر دلالت ہے کہ فرشتوں کی وہ جماعت حضرت آدم علیہ السلام سے دور تھی اور اس میں طلب علم کے لیے سعی کرنے کی دلیل ہے اور یہ کہ طلب علم کے لیے سب سے پہلے سیدنا آدم علیہ السلام نے سعی کی۔
امام بخاری رحمہ الله نے نقل کیا ہے کہ حضرت عبدالله بن عباس رضی الله عنہما اور حر بن قیس فزاری کا صاحب موسیٰ کے بارے میں اختلاف ہوا کہ وہ کون تھے؟ حضرت ابن عباس رضی الله عنہا نے فرمایا کہ وہ حضرت خضر علیہ السلام تھے۔ حضرت ابی بن کعب رضی الله عنہ کا ان پر گزر ہوا تو حضرت ابن عباس رضی الله عنہما نے ان کو بلا کر فرمایا کہ میرا اور میرے ساتھی کا صاحب موسی کے بارے میں اختلاف ہوا ہے، جن کی ملاقات کے لیے حضرت موسی علیہ السلام نے راہ نمائی طلب کی تھی کہ وہ کون تھے؟ کیا آپ نے نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کو ان کے بارے میں کچھ فرماتے ہوئے سنا ہے؟ انہوں نے کہا کہ ہاں! میں نے نبی کریم صلی الله علیہ وسلم سے سنا ،آپ ارشاد فرمارہے تھے کہ حضرت موسی علیہ السلام بنی اسرائیل کی ایک جماعت میں تشریف فرما تھے کہ ایک شخص آیا اور اس نے کہا کہ آپ سے کوئی عالم ہے؟ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے جواب میں فرمایا کہ نہیں۔ الله کریم نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو بذریعہ وحی ارشاد فرمایا کہ ہاں! ہمارا بندہ خضر علیہ السلام تم سے بڑا عالم ہے۔حضرت موسیٰ علیہ السلام نے ان تک رسائی حاصل کرنے کا راستہ دریافت کیا۔ الله نے مچھلی کو ان کے لیے علامت مقرر فرمایا اور فرمایا کہ جہاں یہ مچھلی تم سے گم ہوجائے، اس جگہ کی طرف واپس آجانا، وہ تم کو وہاں مل جائے گی۔ یہ دریا میں مچھلی کا نشان دیکھتے رہے تو موسیٰ علیہ السلام کے ساتھی جوان نے کہا کہ جب ہم چٹان کے پاس آرام کے لیے ٹہرے تھے تو میں بھول گیا اور شیطان نے مجھ کو بھلا دیا، اس مچھلی نے سمندر میں اپنی راہ لی تھی۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے کہا یہی تو ہم چاہتے تھے، وہاں سے اپنے قدموں کے نشانات دیکھتے ہوئے واپس پلٹے ان دونوں نے حضرت خضر علیہ السلام کو پالیا، پھر ان میں وہ مکالمہ اور معاملہ ہوا جو الله نے اپنی کتاب میں بیان فرمایا۔ حافظ ابن حجر رحمہ الله نے فتح الباری میں اس حدیث کی شرح میں فرمایا کہ یہ باب طلب علم کے لیے مشقت برداشت کرنے کے لیے قائم کیا گیا ہے۔ اس لیے کہ جو چیز انسان کو قابل رشک بنائے اس کے حصول کے لیے مشقت برداشت کرنی پڑتی ہے۔ سیدنا حضرت موسیٰ علیہ السلام کی سیادت اور آپ کے مقام رفیع نے آپ کو طلب علم اور اس کے لیے بحر وبر کا سفر کرنے سے نہیں روکا۔
حضرت موسی علیہ السلام نے حضرت خضر علیہ السلام کے ساتھ ملاقات اور ان سے حصول علم کے اشتیاق کا اظہار کیا تھا، اس میں قوم کے لیے تعلیم ہے کہ وہ ان کے طریقہ کو اپنائیں اور اس میں تزکیہ نفس والوں کے لیے تنبیہ ہے کہ وہ تواضع کا راستہ اختیار کریں، اس میں اضافہ علم کی فضیلت ہے، اگرچہ اس کے لیے مشقت کیوں نہ برداشت کرنا پڑے۔ خطیب البغدادی نے اپنی کتاب (الرحلة فی طلب الحدیث) میں اس حدیث کو ذکر کرنے کے بعد لکھا ہے کہ بعض اہل علم نے کہا ہے کہ موسیٰ علیہ السلام نے سفر کی جو مشقت اٹھائی اور اس مشقت پر جوصبر کیا اور حضرت خضر کے ساتھ جس طرح عاجزی سے پیش آئے جب کہ حضرت خضر کو حضرت موسیٰ علیہ السلام کے شرف نبوت کا علم بھی ہو گیا تھا، اس میں اس بات پر دلالت ہے کہ اہل علم کا مقام ومرتبہ بہت بلند ہے اور یہ کہ جس سے علم حاصل کیا جائے اس کے سامنے تواضع اور عاجزی ہی بہتر ہے، درجہ اور مقام کی بلندی کی وجہ سے اگر شاگرد استاد کے سامنے تواضع سے مستثنی ہوتا تو وہ حضرت موسی ہی ہوتے، لیکن جب انہوں نے اہتمام اور کوشش کا اظہار کیا اور جو علم ان کے پاس نہ تھا اس کے لیے وطن سے نکل جانا منظور کر لیا تو اس میں اس بات پر دلالت ہے کہ مخلوق میں کوئی بھی ایسا نہیں جو تواضع کے بغیر بلند ہوا ہو۔
الله کریم نے ارشاد فرمایا: جب موسیٰ علیہ السلام نے اپنے جوان کو کہا: ” میں نہ ہٹوں گا جب تک نہ پہنچ جاؤں، جہاں ملتے ہیں وہ دریا یا چلتا جاؤں قرنوں“ حضرت موسیٰ علیہ السلام کو اس عالم سے ملاقات کی اتنی شدید حرص تھی اور ان سے سیکھنے کی اتنی خواہش، پھر جب ان سے ملاقات ہو گئی تو وہ ان کے ساتھ ایسے پیش آئے جیسے ایک طالب علم اپنے استاد کے ساتھ پیش آتا ہے، موسیٰ علیہ السلام نے ان کو کہا:”کہیے تو میں تیرے ساتھ رہوں اس بات پر کہ مجھ کو سکھلادے جو کچھ تجھ کو سکھلائی گئی ہے، بھلی راہ سلام کرنے کے بعد، انہوں نے حضرت خضر علیہ السلام کے ساتھ رہنے کی اجازت طلب کرنے سے بات کی ابتدا کی کہ آپ کے ساتھ رہنا آپ کی اجازت سے ہو گا، اس لیے کہا کہ جو بھلی راہ آپ کو سکھلائی گئی ہے، آپ مجھ کو سکھلا دیں اور یہ کہ علم سیکھنے اور علم میں اضافہ کے لیے آئے ہیں، کسی امتحان اور عیب کے تلاش کے لیے نہیں۔
علم کے شرف وفضیلت کے لیے یہ بات کافی شافی ہے کہ الله تعالیٰ کے نبی اور کلیم علیہ السلام نے جب ایک عالم شخص کے بارے میں سنا تو آپ کو اس وقت تک قرار نہ آیا، جب تک آپ نے ان سے مل کر ان کے ساتھ رہنے کی اجازت طلب نہ کر لی، یہ طویل سفر اور سفر کی صعوبتیں آپ نے صرف تین مسئلوں کے لیے برداشت کیں۔ جن کی تفصیل قرآن میں مذکور ہے۔