جہاں تک راقم الحروف نے غور کیا، ہمارے انحطاط کا بنیادی سبب یہ ہے کہ رفتہ رفتہ دینی مدارس کے تعلیم و تعلّم کا یہ نظام ایک رسم بنتا جارہا ہے، اور اس کا اصل مقصد نگاہوں سے اوجھل ہورہا ہے، اگر چہ ہماری زبانوں پر یہی جملہ رہتا ہے کہ ہماری تمام کاوشوں کا مقصدِ اصلی دین کی خدمت ہے، لیکن بسا اوقات یہ بات محض گفتار ہی کی حد تک محدود رہتی ہے، اور دل کی گہرائیوں میں جاگزیں نہیی ہوتی، اگر یہ مقصد واقعتاً ہمارے دل کی گہرائیوں میں جاگزیں ہوتا تو اس کی لگن سے ہمارا کوئی لمحہ خالی نہ ہوتا، پھر ہمیں اپنے اسلاف کی طرح ہر وقت یہ فکر دامن گیر رہتی کہ ہمارا کوئی عمل اللہ تعالی کی مرضی کے خلاف تو نہیی، اور ہمارا طرز عمل خدمت دین اور اس کے مقصد کے لیے مفید ہورہا ہے یا مضر ؟؟
اس کے برعکس عملاً ہماری تمام تر توجہات دینی مدارس کے ظواہر پر مرکوز رہتی ہیں،اور ان توجہات میں مقصدِ اصلی کی لگن کا کوئی عکس نظر نہیی آتا،عموماً منتظمین کے عملی مسائل یہ ہوتے ہیں کہ کس طرح مدرسے کی شہرت میں اضافہ ہو؟ کس طرح اس میں طلبہ کی تعداد بڑھے؟ کس طرح مشہور اساتذہ کو اپنے یہاں جمع کیا جائے؟ اور اس سے بڑھ کر یہ کہ کس طرح عوام میں مدرسے اور اس کے اهل حل و عقد کی مقبولیت میں اضافہ ہو؟ ہمارا طرزعمل اس بات کی گواہی دیتا ہے کہ مدارس کے قیام سے ہمارے پیش نظر یہی بنیادی مقاصد ہیں، جن کے حصول کی دھن میں ہمارے شب وروز صرف ہورہے ہیں، چنانچہ ان مقاصد کو حاصل کرنے کے لیے بعض اوقات ایسے ذرائع اختیار کیے جاتے ہیں، جو کسی دین اور اهل دین کے شایان شان نہیں ہوتے، بلکہ بعض اوقات تو ان مقاصد کے لیے واضح طور پر ناجائز ذرائع کے استعمال میں بھی باک محسوس نہیی کیا جاتا، اور اگر کسی مدرسے کو ان مقاصد میں فی الجملہ کامیابی حاصل ہوجائے تو یہ سمجھ لیا جاتا ہے کہ مقصد اصلی حاصل ہوگیا، لیکن طلباء کی تعلیمی، اخلاقی اور دینی حالت کیسی ہے؟ ہم کس قسم کے افراد تیار کرکے اس سے معاشرے کی قیادت کے خواہش مند ہیں؟ اور فی الواقعہ ہماری جدوجہد سے دین کو کتنا فائدہ پہنچ رہا ہے؟ ان سوالات پر غور کرنے اور ان کی تڑپ رکھنے والے رفتہ رفتہ مفقود ہوتے جارہے ہیں۔
اس صورت حال کا بنیادی سبب یہ کہ ہم ایک مرتبہ زبان سے اپنا مقصد اصلی خدمت دین کو قرار دینے کے بعد عملی زندگی می اسے بھول جاتے ہیں، اور اپنی کوششوں کا تمام تر محور ان ظواہر کو بنالیتے ہیں، جو یا تو شرعاً مطلوب ہی نہیں، یا اگر مطلوب ہیں تو اس شرط کے ساتھ کہ ان کو نیک نیتی سے مقصد کا محض ذریعہ قرار دیا جائے، خود مقصد نہ سمجھ لیا جائے۔
اسی طرح اساتذہ کا معاملہ عام طور سے یہ نظر آتا ہے کہ ان کا محورفکر بسا اوقات یہ رہتا ہے کہ ہمیں کونسا مضمون یا کونسی کتاب پڑھانے کے لیے ملے؟ طلبہ پر کس طرح اپنے علمی تفوق کی دھاک بٹھائی جائے، وہ کونسے ذرائع اختیار کیے جائیں جن سے طلبہ می اپنی مقبولیت بڑھے؟ اور پھر اس مقبولیت میں اضافہ کی خاطر بسا اوقات یہ بات مد نظر نہیی رہتی کہ طلبہ کے لیے کونسا طرزعمل زیادہ مفید اور مناسب ہے؟ بلکہ دیکھا یہ جاتا ہے کہ کیا طرز عمل طلبہ کی خواہشات کے مطابق ہے؟ چنانچہ اس کے نتیجے میں اساتذہ اپنے طلبہ کی رہنمائی کرنے کے بجائے ان کی خواہشات کے تابع ہوکر رہ جاتے ہیں،اور طلبہ اساتذہ کے پیچھے نہیی چلتے، بلکہ اساتذہ طلبہ کی خواہشات کے پیچھے چلنے لگنے ہیں۔
ماضی میں خاص طور پر دینی مدارس کی روایت یہ رہی ہے کہ اساتذہ اور طالب علم کا رشتہ محض ایک رسمی رشتہ نہیں ہوتا تھا جو درسگاہ کی حد تک محدود ہو، اس کے بجائے وہ ایک ایسا روحانی رشتہ ہوتا تھا، جو دائمی طور پر عمر بھر قائم رہتا تھا۔ استاذ صرف کتاب پڑھانے کی ڈیوٹی ادا کرنے والا معلم نہیی ہوتا تھا بلکہ وہ اپنے طلبہ کے لیے ایک مشفق باپ، ان کا اخلاقی اور روحانی مربی اور علم و عمل دونوں کے میدان میں ایک شفیق نگراں کی حیثیت رکھتا تھا جو طلبہ کے نجی معاملات تک دخیل ہوتا تھا، اس کا نتیجہ یہ تھا کہ طلبہ اپنے اساتذہ سے علمی استعداد کے ساتھ ساتھ اخلاقی تربیت بھی حاصل کرتے تھے، ان سے زندگی کا سلیقہ سیکھتے تھے، ان سے للہیت، ایثار، تواضع اور دوسرے اخلاق فاضلہ اپنی زندگی میں جذب کرتے تھے اور اس طرح شاگرد اپنے استاذ کے علم و عمل کا آئینہ ہوا کرتا تھا۔
اب رفتہ رفتہ یہ باتیں داستان پارینہ ہوتی جارہی ہیں اور وجہ وہی ہے کہ استاذ نے اپنا مقصد صرف درسگاہ میں ایک ایسی تقریر کرنے کو بنالیا ہے جسے طلبہ پسند کر سکیں، رہی یہ بات کہ کس قسم کی تقریر ان طلبہ کے لیے زیادہ مفید ہے؟ ان طلبہ کو مفید تر بنانے کے لیے ان کو کن کاموں کا مکلّف کرنا ضروری ہے؟ طلبہ کے کونسے رجحانات ان کے علم و عمل کے لیے مضر ہیں؟ ان رجحانات کو کس طرح ختم کیا جاسکتا ہے؟ طالب علم درسگاہ سے باہر جاکر کس قسم کی زندگی گزارتے ہیں؟ ان سوالات کے بارے میں سوچنے اور ان مقاصد کی لگن رکھنے والے-الا ما شاء اللہ- مفقود ہوتے جارہے ہیں۔
دار العلوم دیوبند کی بنیادی خصوصیت جس کی بناء پر وہ بر صغیر کے دوسری درسگاہوں سے ممتاز ہوا، یہ تھی کہ وہ علم برائے علم کا ادارہ نہ تھا بلکہ انسانوں کی ایسی تربیت گاہ تھی جس سے صحیح العقیدہ سچے اور پکے مسلمان تیار ہوتے تھے، اپنی گفتار سے زیادہ کردار سے اسلام کی تبلیغ کرتے تھے۔
اس وقت ہمیں سب سے پہلے اپنے ماحول میں دینی مدارس کی اسی روح کو از سر نو تازہ کرنے کی ضرورت ہے، کیونکہ اس کے بغیر ہماری درسگاہیں اگر بہت کامیاب ہوئیں تب بھی محض علم برائے علم کے مراکز بن کر رہ جائیں گی، مدرسے قائم کرنا اور ان میں چند لگے بندھے علوم کا درس دینا بذات خود ایک مقصد بن جائے گا، جس می بہت سے مستشرقین پورپ بھی سرگرم عمل ہیں، اور رفتہ رفتہ ہم سے سارے اوصاف گم ہوجائیں گے جو ان علوم کی درس و تدریس کے لیے لازمی شرط کی حیثیت رکھتے ہیں۔
دینی مدارس میں یہ اصل روح جو مرور ایام سے دھیمی پڑتی جارہی ہے، از سر نو تازہ کرنے کے لیے سب سے اہم ذمہ داری ان درسگاہوں کے اساتذہ اور منتظیمین پر عائد ہوتی ہے، ان کا یہ فریضہ ہے کہ وہ پہلے اپنے ذاتی اعمال و اخلاق کا جائزہ لے کر یہ دیکھیں کہ اسلامی علوم نے ان میں اپنا کوئی رنگ پیدہ کیا ہے یا نہیں؟ خوف خدا اور فکر آخرت میں کتنا اضافہ ہوا؟ اللہ کے ساتھ تعلق کتنا بڑھا؟ عبادت کے ذوق میں کتنی زیادتی ہوئی؟ جن فضائل اعمال کی دوسروں کو شب و روز تلقین کی جاتی ہے، ان پر خود کتنا عمل پیرا ہوے؟ جس انفاق فی سبیل اللہ کی دوسروں کو بڑھ چڑھ کر تاکید کی جاتی ہے، اس میں ہم خود کس قدر حصہ دار بنے؟ دین کے خاطر جان و مال کی قربانی دینے کے جذبے نے کتنی ترقی کی؟ معاشرے کے بگاڑ سے کرب و اضطراب کی کیفیت اور اس کی اصلاح کی فکر کس حد دل و دماغ پر طاری ہوئی؟ ۔۔۔۔۔۔ یہ ساری باتیں ہمارے سوچنے کی ہیں۔ اور اگر ہم حقیقت پسندی کے ساتھ ان سوالات کا جواب اپنے عمل میں تلاش کریں، تو ندامت و حسرت کا پیدا ہونا ناگزیر ہے۔
ضرورت اسی ندامت و حسرت سے کام لینے کی ہے، لیکن اس سے صحیح کام اسی وقت لیا جاسکتا ہے، جب ندامت و حسرت محض وقتی ابال نہ ہو، بلکہ اس کا بار بار استحضار ہوتا رہے، یہاں تک کہ یہ مستقبل کے لیے نشان راہ بن جائے۔۔۔۔