نظامِ تعلیم میں تدریس اور طریقۂ تعلیم کی جو اہمیت وافادیت ہے، وہ محتاجِ وضاحت نہیں ، دینی مدارس میں تدریس کا اسلوب اور طریقۂ کار کیا ہے؟ ذیل میں اولاً اس کا ذکر کیاجاتا ہے، اس کے بعد تدریس کے لئے بنیادی اصول ومبادی کی وضاحت کی جائے گی۔
تدریس کے مروجہ طریقے:
تدریس اور کتب پڑھانے کے مختلف طریقے رائج ہیں اور ہر استاذ اپنے اپنے ذوق اور مزاج کے مطابق ان میں سے کسی ایک کو اختیار کرتا ہے، چند اسلوب یہ ہیں:
(۱)… استاذ شاگرد کو کتاب کا ایک خاص حصہ مطالعہ کرنے اور سمجھنے کے لئے دیتا ہے، طالب علم اس حصے اور بحث کا مطالعہ اور اسے حل کرنے کی اپنی سی کوشش کرتا ہے اور اگلے دن آکر استاذ کو وہ سبق سناتا ہے، استاذ کا کام صرف اس کے سبق کی تصحیح یا تصدیق کرنا ہوتا ہے یعنی اگر اس سے حلِ سبق میں کوئی غلط فہمی ہوئی ہے تو اس کی اصلاح کر دیتا ہے اور اگر وہ صحیح سمجھا ہے تو اس کی صحت کی تصدیق کر لیتا ہے۔
تعلیم کا یہ طریقہ بڑا مفید ہے، اس میں چوں کہ زیادہ بوجھ اور حلِ سبق کا زیادہ کام طالب علم کے ذمہ ہوتا ہے اس لئے بہت جلد کتاب سمجھنے کی صلاحیت اور فن سے مناسبت اس میں پیدا ہو جاتی ہے، شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد زکریا رحمہ اللہ نے اکثر کتابیں اسی انداز سے پڑھی ہیں، اس میں یہ بھی ضروری نہیں کہ ساری کتاب ختم کی جائے بلکہ جب دیکھا جائے کہ طالب علم میں کتاب حل کرنے کی پوری پوری استعداد پیدا ہوگئی ہے تو فن کی دوسری کتاب اسے شروع کرادی جائے، البتہ تعلیم کا یہ طریقہ بالکل ابتدائی طلبہ کے لئے مفید نہیں، درمیانے درجے کی کتابوں میں یہ طریقہ اختیار کیا جاسکتا ہے۔ ان مدارس میں جہاں طلبہ کی تعداد زیادہ ہو، ظاہر ہے کہ وہاں یہ طریقہ نہیں چل سکتا، یہ صرف وہاں جاری ہوسکتا ہے جہاں طلبہ کی تعداد بہت کم ہو، آج دیہات وغیرہ کے جن مدارس میں فی درجہ تین چار طلبہ ہوتے ہیں، وہاں یہ طریقۂ تعلیم اختیار کیا جاسکتا ہے۔
(۲)… تدریس کا ایک عمومی طریقہ یہ ہے کہ استاذ کے سامنے طالب علم کتاب میں متعلقہ سبق کی پوری عبارت پڑھتا ہے، استاذ اولاً، اس عبارت میں بیان کردہ مضمون کی تشریح اور اس پر زبانی تقریر کرتا ہے، اس تشریح میں بسا اوقات وہ سبق کا تجزیہ بھی کرتا ہے مثلاً وہ کہتا ہے، آج کے سبق میں چار بحثیں ہیں: پہلی بحث، دوسری بحث، تیسری بحث، چوتھی بحث… پھر متعلقہ عبارت کا ترجمہ کرتے ہوئے اپنی تشریح اور تقریر کو اس پر منطبق کرلیتا ہے۔ یہ ایک کامیاب طریقۂ تدریس ہے لیکن اس شرط کے ساتھ کہ استاذ کی تشریحی تقریر اور زبانی تجزیہ یا بیان کردہ خلاصہ متعلقہ عبارت کے مطابق ہو اور ترجمہ کرتے ہوئے استاذ اپنی تشریحی تقریر کا عبارت کے ساتھ انطباق اس انداز سے کرنے کی پوری صلاحیت رکھتا ہو کہ طالب علم کے سامنے عبارت اور نفس مسئلہ دونوں اچھی طرح واضح ہوکر آجائیں، اگر استاذ کی ہوائی تقریر کا کتاب کی عبارت کے ساتھ جوڑنہ ہو تو ایسی صورت میں طلبہ کا ذہن الجھ جاتا ہے اور تدریس کے حوالے سے ایسے استاذ کا کوئی اچھا اثر اور فائدہ مرتب نہیں ہوتا۔
(۳)… ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ طالب علم سارے سبق کی عبارت نہیں پڑھتا، بلکہ ایک بحث یا ایک مسئلہ کی عبارت پڑھتا ہے، استاذ اس کی تشریح کرنے کے بعد عبارت کا ترجمہ کرتا ہے، پھر وہ اگلی بحث سے متعلق عبارت پڑھتا ہے، استاذ اس کی تشریح اور ترجمہ کرتا ہے، اس طرح سبق پورا ہونے کے بعد استاذ ساری عبارت کا عربی پڑھے بغیر صرف ترجمہ دہرادیتا ہے، اس طریقے میں طالب علم کی عبارت ہی سے سبق کا تجزیہ ہوجاتا ہے، یہ طریقہ بھی تقریباً پہلے طریقے سے ملتا جلتا ہے، سوائے اس کے کہ اس میں طالب علم ساری عبارت ایک ساتھ اور استاذ سارے سبق کی تشریح اور خلاصہ ابتدا میں ایک ساتھ بیان نہیں کرتا، بلکہ عبارت اور تشریح حصہ وار چلتی ہیں۔ یہ بھی ایک عمدہ طریقۂ تدریس ہے اور خاص کر فقہ اور اصول فقہ کی کتابوں کی تعلیم میں بہت مفید ہے۔
(۴)… ایک اسلوب یہ بھی ہے کہ طالب علم کے عبارت پڑھنے کے بعد استاذ زبانی تشریح یا خلاصہ بیان نہیں کرتا، بلکہ وہ عبارت کا ترجمہ اور تشریح ساتھ ساتھ کرتا ہوا آگے بڑھتا ہے اور پورا درس اسی انداز میں انتہاء تک پہنچ جاتا ہے، ادب کی کتابوں کی تدریس میں عموماً یہی طریقہ رائج ہے لیکن ادب کے علاوہ دوسرے فنون کی کتابوں میں یہ طریقۂ تدریس کوئی زیادہ مقبول نہیں۔
درس کی کیفیت کے اعتبار سے بعض اساتذہ کا مزاج اور طریقہ، ابتدائے سال میں لمبی تقریر اور خوب سے خوب تر تشریح اور تفصیل کرنے کا ہوتا ہے، اِدھر جوں جوں سال گزرنے لگتا ہے، اُدھر ان کی تقریر میں بھی اختصار آنے لگتا ہے، ابتدا میں اطناب اور آخر میں ایجاز کے اس طریقۂ تدریس کے پس منظر میں یہ تعلیمی فلسفہ کارفرما ہے کہ شروع میں کتاب اور فن سے مناسبت پیدا ہونے اورمصنف کا اسلوب اور مزاج سمجھنے میں کچھ وقت لگتا ہے، استاذ کے تفصیلی دروس سے رفتہ رفتہ طالب علم میں فن اور کتاب سے مناسبت پیدا ہوتی چلی جاتی ہے، اس لئے آخر میں وقت کی تنگی کی وجہ سے اختصار اختیار کرنا کوئی ایسا مضر نہیں، لیکن اس کے برعکس بعض اساتذہ کا طریقہ تدریس شروع سے آخر تک یکساں رہتا ہے، ان کے ہاں نہ ابتدا میں لمبی چوڑی تفصیلات ہوتی ہیں اور نہ ہی آخر میں اغلاق و ایجاز ہوتا ہے، بلکہ کتاب میں موجود ضروری اور اہم مباحث کی بقدر ضرورت تشریح و تفصیل سال کی ابتدا اور آخر میں یکساں جاری رہتی ہے اور یہی دوسرا طریقہ زیادہ مفید اور مقبول سمجھا جاتا ہے۔ دورہ حدیث کی کتابوں کی تدریس میں عموماً ذکر کردہ پہلا طریقہ رائج ہے کہ ابتدا میں تفصیلی مباحث اور طویل تقریریں ہوتی ہیں اور آخر میں یہ تشریح یا بالکل ختم ہوجاتی ہے، صرف عبارت کا ’’سرد‘‘ ہوتا ہے اور یا بہت مختصر ہو جاتی ہے، صحاح ستہ میں مکرر احادیث کی وجہ سے آخر سال میں تشریح کو مختصر کر دینا یا صرف احادیث کی تلاوت پر اکتفا کر دینا کوئی نقصان دہ نہیں، البتہ دورہ حدیث کے اسباق میں اگر فنی مباحث کو اساتذہ ٔحدیث کے درمیان تقسیم کردیا جائے تو زیادہ مفید رہے گا، چنانچہ بعض مدارس میں تقسیم مباحث کے فارمولے پر عمل کیا جاتا ہے، مثلاً :’’کتاب الایمان‘‘ اور’’ کتاب البیوع ‘‘کی تفصیلی فقہی اور حدیثی بحثوں کو صحیح مسلم شریف کے حصہ تدریس میں رکھ دیا جائے اور صرف مسلم شریف پڑھانے والا استاذ ان پر تفصیلی کلام کرے،’’ کتاب الطہارۃ، صلاۃ، زکاۃ‘‘ کو ترمذی شریف کے درس کے لئے مختص کیا جائے اور ترمذی کا استاذ ہی ان پر تفصیلی بحث کرے، اس طرح تمام اہم مباحث کی اس تقسیم کا یہ فائدہ ہوگا کہ طلبہ اس تکرار اور یکساں مباحث کے اعادے سے بچ سکیں گے جو دورہ حدیث کے اسباق میں عموماً ہوتا ہے، صحاح ستہ کی ابتدا میں چوں کہ اکثر کتاب الایمان ، طہارۃ، صلاۃ، زکاۃ وغیرہ ہیں، اس لئے ہر استاذ ان پر تفصیلی محدثانہ کلام کرتا ہے جس کی وجہ سے ابتدا میں تو یکساں مباحث کا تکرار ہوجاتا ہے اور ان کتب کے آخری حصوں میں ابواب میں سال آخر ہونے کی وجہ سے صرف سردِ عبارت پر قناعت کرنی پڑتی ہے۔ اساتذۂ حدیث کے درمیان تقسیمِ مباحث سے اس تکرار کا ازالہ کرکے احادیث پر تشریحی کلام میں یکسانیت قائم کی جاسکتی ہے۔
تدریس کے چار بنیادی اصول
ان طریقوں اور اسالیب کا ذکر ہوگیا جو درس نظامی کی کتابوں کی تدریس میں عام طور سے رائج ہیں، اب ذیل میں ان چار بنیادی اصول کا ذکر کیا جاتا ہے جن کے بغیر اچھی تدریس اور عمدہ طریقۂ تعلیم کا تصور نہیں کیا جاسکتا، ذکر کردہ طریقہ ہائے تدریس میں جو بھی طریقہ اختیار کیا جائے جب تک ان چار بنیادی اصول کے ستون فراہم نہیں ہوں گے، عمدہ تدریس کی عمارت کھڑی نہیں ہوسکے گی، وہ چار اصول یہ ہیں:
(۱)… مضمونِ درس اور نفس سبق پر قدرت
جو سبق آپ نے پڑھانا ہے، ضروری ہے کہ پہلے آپ خود اسے اچھی طرح سمجھے ہوں، اس کے لئے ضروری معلومات آپ کے پاس ہوں، اس کے متعلق جو شبہات اور سوالات ایک طالب علم کے ذہن میں آسکتے ہیں، ان کی اور ان کے حل اور جوابات کی تفصیل آپ کے ذہن میں ہو اور ظاہر ہے یہ چیز اسی وقت حاصل ہوسکتی ہے جب آدمی نے متعلقہ سبق کے لئے بھرپور مطالعہ اور تیاری کی ہو، مطالعہ کو مختلف تدریجی مراحل میں تقسیم کیا جاسکتا ہے اور ہر آدمی اپنے ذوق اور وقت کے اعتبار سے ان میں طوالت اور اختصار سے کام لے سکتا ہے لیکن اس قدر تیاری ہر استاذ کے لئے لازمی ہے کہ اولاً نفس عبارت کا حل ہو، درس نظامی کی کتابیں اکثر مغلق اور پیچیدہ ہیں، ان کی عبارتوں کو حل کرنے اور سمجھنے میں کافی محنت کی ضرورت ہوتی ہے، نفس سبق کے حل میں عبارت کا درست تلفظ، اعرابی حالت کی درستگی، مشکل الفاظ کے معانی، عبارت کا مفہوم اور مقصد کو سمجھنا داخل ہے، بسا اوقات کوئی لفظ محذوف ہوتا ہے، یا عبارت کسی شبہے کا جواب ہوتی ہے، کسی خاص بات سے احتراز کے لئے کوئی قید بڑھادی جاتی ہے، حل عبارت میں ان تمام متعلقہ چیزوں سے واقف ہونا ضروری ہے، عموماً بین السطور اور حواشی نے حل عبارت سے متعلق ان تمام یا اکثر باتوں کی وضاحت کی ہوتی ہے، ثانیاً حلِ عبارت کے ساتھ مضمون درس سے بھی واقفیت اور اُ س فن میں ضروری مطالعہ ہونا چاہیے۔
(۲)…تعبیر
اچھی تدریس کی دوسری بنیاد ’’ تعبیر اور اظہار مافی الضمیر‘‘ پر قدرت ہے، یعنی جس سبق کا آپ نے مطالعہ کیا ہے، تیاری کی ہے، آپ خوبصورت اسلوب اور دلنشین انداز میں وہ طلبہ کے سامنے بیان کرسکیں، صحیح، واضح اور دلنشین تعبیر اور اندازِ بیان کے بغیر عمدہ تدریس کا تصور نہیں کیا جاسکتا، ایک مدرس اور استاذ وسیع مطالعہ رکھتا ہے، سبق کے مضمون اور متعلقہ بحثوں پر عبور اور گہری نظر رکھتا ہے، لیکن اپنے مافی الضمیر کے اظہار اور طلبہ کے سامنے اپنے مطالعہ کا نچوڑ پیش کرنے کے لیے اس کے پاس لفظوں کی مناسب زبان نہیں، ایسے استاذ کے سبق اور علم سے طلبہ زیادہ استفادہ نہیں کرسکتے اور وہ ایک اچھا مدرس نہیں کہلاسکتا۔
وہ فضلاء جو نئے نئے فارغ ہوکر میدان تدریس میں آتے ہیں، ماشاء اللہ ان کے جذبات تازہ، خون گرم اور شوق جوان ہوتا ہے، زیر تدریس کتاب کے لئے اکثر وہ خوب مطالعہ کرتے ہیں، لیکن عموماً تعبیر اور اسلوب بیان کی طرف توجہ نہیں دیتے، ایسے حضرات کی خدمت میں گزارش ہے کہ اگر وہ تعبیر میں کمزور ہیں تو بجائے اس کے کہ ایک کتاب کے لئے پانچ چھ شروح کا مطالعہ کرنے اور غیر متعلقہ مباحث کو ذہن میں محفوظ کرنے کی مشقت برداشت کریں، وہ تدریس کے لئے اپنی تعبیر کی درستگی اور اظہار مافی الضمیر کی عمدہ صلاحیت حاصل کرنے کی طرف توجہ مبذول فرمائیں۔ ’’ اظہار مافی الضمیرکی صلاحیت‘‘ سے مراد، وہ خطیبانہ صلاحیت نہیں ہے جو وعظ و ارشاد، جلسوں اور جمعہ کے خطبوں میں کام آتی ہے، وہ ایک مختلف چیز ہے اور اس کے اصول اور تقاضے بھی الگ ہیں، بلکہ اس سے مراد وہ مدرسانہ صلاحیت ہے جس کا اظہار مسند درس پر بیٹھ کر ہوتا ہے یعنی جس سبق کی آپ نے رات کو تیاری کی ہے، اس کو عام فہم اسلوب، آسان الفاظ اور دلنشین انداز میں طلبہ کے سامنے آپ میں بیان کرنے کی ایسی صلاحیت ہو کہ درس میں وہ سبق بھی طلبہ کی سمجھ میں آجائے اور اسلوب کی شیرینی اور کلام کی مٹھاس سے بھی سامعین محظوظ ہوں، تعبیر کی حلاوت و شیرینی مشکل اور طویل سبق میں بھی انہیں اکتانے اور بور ہونے نہ دے۔
اس طرح کی عمدہ تعبیر پر قدرت پانا کوئی ایسا آسان نہیں کہ وہ مشق وریاض کے بغیر حاصل ہوجائے گی بلکہ اگر کہا جائے کہ سبق سمجھنے اور اس کے لئے متعلقہ امور کی تیاری سے یہ کام زیادہ مشکل ہے تو مبالغہ نہیں ہوگا، چنانچہ اس کے لئے ٹھیک طرح کی ریاض اور محنت کی ضرورت ہے، اس مشق اور محنت کی ایک صورت یہ بھی ہوسکتی ہے کہ جو سبق آپ نے اگلے دن پڑھانا ہے، آپ پہلے تنہائی میں اسے اس تصور کے ساتھ دہرائیں کہ آپ درس گاہ میں طلبہ کے سامنے بیٹھ کر پڑھا رہے ہیں، تنہائی کے اس تجرباتی عمل میں آپ ایک مفہوم کی مختلف تعبیرات میں ترجمانی کی مشق کریں، اس مشق میں آپ کے سامنے ایک مفہوم کے لئے مختلف تعبیرات آئیں گی، آپ کا ذہن متنوع اسالیب اور اظہار کی متعدد شکلیں بنائے گا جس سے رفتہ رفتہ سبق پڑھانے کی عمدہ تعبیر کی صلاحیت اور مشکل سے مشکل مسئلہ چٹکیوں میں سمجھانے کا ملکہ آپ میں ان شاء اللہ پیدا ہوجائے گا اور کچھ عرصہ کے بعد پھر تنہائی کی اس تجرباتی تدریس کی بھی ضرورت نہیں رہے گی۔
اس اصول کی طرف اہتمام کے ساتھ توجہ اس لئے مبذول کرائی گئی ہے کہ بعض نو واردان بساطِ تدریس، علمی دھاک بٹھانے یا آتش شوق بجھانے کے لئے رات رات بھرمطالعہ کرتے ہیں، نوادرات حفظ کرتے ہیں، نکات یاد کرتے ہیں، لیکن اگلے دن درس میں اس مطالعہ ، ان نوادرات اور ان نکات کو طلبہ کے سامنے بیان کرنے کے لئے ان کے پاس کوئی مناسب ترجمان نہیں ہوتا، ٹوٹی پھوٹی تعبیر میں اگر رات بھر کی محنت کو لفظوں کی زبان مل بھی گئی تو طلبہ پر اس کا اثر اس مہمان کے تاثر سے زیادہ مختلف نہیں ہوتا جس کی خدمت میں عسل مصفی ٹوٹے جام یا میلے پیالے میں پیش کیا گیا ہو۔
(۳)… نظم وترتیب
عمدہ تدریس کے لئے تیسرا بنیادی اصول ’’ نظم و ترتیب‘‘ ہے، یعنی آپ نے درس کے لئے جو مطالعہ کیا ہے اور سبق کے متعلق جو کچھ آپ طلبہ کے سامنے کہنا چاہتے ہیں، ضروری ہے کہ اس میں آپ نے ذہنی خاکہ بنا کر ایک ترتیب اور نظم قائم کرلیا ہو کہ کون سی بات کہاں کہنی ہے اور کون سی بحث کس بحث سے پہلے یا بعد میں کرنی ہے، اگر آپ کو نفس درس اور اس کے اظہار دونوں پر تو عبور ہے لیکن اس میں بے ترتیبی کا نقص موجود ہے تو آپ کا سبق طلبہ کو ذہن نشین نہیں ہوسکے گا، پہلے سے ذہن میں نظم وترتیب قائم نہ کرنے کی وجہ سے اکثر ایک نقصان یہ ہوتا ہے کہ درس میں مطالعہ کی ہوئی مختلف باتوں کا ذہن پر یکدم ہجوم ہونے سے آدمی تشویش کا شکار ہوجاتا ہے، جو بات آخر میں کہنے کی ہوتی ہے ، وہ اول میں کہہ دی جاتی ہے اور جو اول میں کہنے کی تھی، وہ سرے سے یاد ہی نہیں رہتی، یا وہاں کہنا پڑتی ہے جہاں اس کا موقع نہیں ہوتا، بدنظمی اور بے ترتیبی کا شاخسانہ اسی طرح ہوتا ہے، اس لئے عمدہ تدریس کے لئے ذہن میں عمدہ نظم اور ترتیب بہرحال ضروری ہے۔
(۴)… طلبہ کے معیار و مستویٰ کی رعایت
تدریس میں طلبہ کے معیار اور مستوی کا خیال رکھنا بھی ایک ضروری امر ہے، ابتدائی طلبہ کے لئے سبق میں آسان اسلوب، عام فہم الفاظ اور علمی اصطلاحات کی بجائے عمومی زبان اختیار کرنی چاہیے، ایک بات کو بار بار دہرانا بھی ان کے لئے مفید ہوتا ہے، جب کہ اگلے درجوں میں علمی زبان اور فنی اصطلاحات کو بے تکلف استعمال کیا جاسکتا ہے، اگر کوئی مدرس نحو میر کے طلبہ کے سامنے شرح جامی کی تحقیقات بیان کرنا شروع کردے یا شرح جامی کے طلبہ کی خدمت میں اسم کی تعریف بار بار دہرانے اور سمجھانے پر زور صرف کرنے لگ جائے، ظاہر ہے کہ اس کی یہ محنت نہ صرف یہ کہ بے فائدہ ہے بلکہ مضر ہے، اس کے لئے بھی اور طلبہ کے لئے بھی ، اسی طرح درجہ سابعہ اور دورہ حدیث کے منتہی طلبہ کے سامنے اگر آپ ’’ قال ‘‘ اور ’’ حدثنا‘‘ کا ترجمہ بار بار دہرائیں گے، یقینا یہ آپ ایک ایسے عمل کا ارتکاب کریں گے جس کا نہ کوئی فائدہ مرتب ہوگا، نہ کوئی خوشگوار اثر، ۔۔۔۔بہرحال طلبہ کی علمی صلاحیت، ان کے درجے کے معیار اور مستوی کو درس میں پیش نظر رکھنا عمدہ تدریس کا ایک بنیادی اصول ہے اور اس اصول کی رعایت ایک مدرس کو ضرور رکھنی چاہیے۔
تدریس کی روحانی اور معنوی تاثیر
تدریس میں معنوی اور روحانی تاثیر کے لئے یہاں دو چھوٹے چھوٹے اقتباسات نقل کئے جاتے ہیں:
حکیم الاسلام حضرت مولانا قاری محمد طیب صاحب رحمہ اللہ (مہتمم دارالعلوم دیوبند) سے ایک مرتبہ کسی نے نصاب تعلیم میں تبدیلی کے متعلق سوال کیا، انہوں نے جواب میں فرمایا:
’’ جہاں تک نصاب کا تعلق ہے وہ تو بالکل قابل اطمینان ہے، یہ وہی نصاب ہے جس سے بڑے بڑے اکابر علماء تیار ہوئے، البتہ طریقہ تعلیم تھوڑا سا بدل گیا… وہ یہ کہ قدیم زمانے کے حضراتِ اساتذہ ایجاز و اختصار کے ساتھ نفس مطلب عبارت پر منطبق کرکے دلوں میں ایسا ڈال دیتے تھے کہ کتاب ذہن نشین ہوجاتی تھی، اب لوگ اس کو حیلہ بنا کے اپنی معلومات پیش کرتے ہیں، جو کچھ رات کو دیکھا، صبح کو بیان کردیا، وہ نقل اور سرد روایت ہوتا ہے اور وہ جو قلبی کیفیت ہے، وہ شامل نہیں ہوتی‘‘
عالم عرب کے مشہور مفکر علامہ یوسف قرضاوی اس موضوع پر اپنے ایک حالیہ مضمون میں لکھتے ہیں:
’’ کئی مدارس و جامعات میں آپ بہتر نصاب تو ضرور پائیں گے لیکن اچھا استاذ آپ کو نہیں ملے گا، اگر کوئی علمی نقطۂ نظر سے بہتر بھی ہو، تاہم ایمانی قوت کے لحاظ سے وہ مردہ دل ہوگا، یہاں قطر میں ہمارا اپنا مشاہدہ ہے کہ ہم نے اسلامی علوم میں موضوع کے لحاظ سے بڑی عمدہ کتابیں لکھیں لیکن ان کتابوں کو ایسا استاذ میسر نہیں آیا جو انہیں ترو تازگی کے ساتھ زندہ جاوید طلبہ تک منتقل کرسکے، بلکہ مُردہ دل اساتذہ نے زندہ موضوعات کو مردہ بنادیا اور جمود سے اس کی حرارت پر افسردگی طاری کردی‘‘۔
(قیمۃ الأمۃ الاسلامیۃ، ص:47)
اس لیے یہ بات ملحوظ رہے کہ تدریس کے ذکر کردہ یہ طریقے، یہ اصول اور یہ مبادی ایک طرف، ان کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا، لیکن ان طریقوں سے آپ صرف خشک بحث، نرا مضمون اور صرف فنی موضوع طلبہ تک منتقل کرسکتے ہیں جو ایک مدرس کا بہرحال فرض منصبی ہے لیکن علم کی اصل روح، علم کی نورانیت اور علم کی وجد آفرین تاثیر منتقل کرنے کے لئے صرف ان اصولوں کی رعایت کافی نہیں، بلکہ اس کے لئے دل کے اس درد، جگر کے اس سوز اور ایمان کی اس کیفیت سے متصف ہونا ضروری ہے جو ایمانی زندگی اختیار کرنے کے بعد اللہ جل شانہ کی توفیق سے انسان کو حاصل ہوتی ہے، عمل صالح کی خوشبو سے معطر ایمان والی زندگی ، جس میں دعا و ابتہال ہو، رجوع الی اللہ ہو، ندامت کے اشکوں سے روح و قلب کی کثافتوں کی تطہیر کا اہتمام ہو، جس کے اپنانے کے بعد دل کی مردگی و افسردگی، نشاط و تازگی میں بدلے گی، اور دل کی سرد انگیٹھی میں حرارت آئے گی… ایمان کی حرارت، اخلاص کی حرارت، شوق و جذبے کی حرارت، جگر کے سوزوگداز اور روح کی سیمابی کی حرارت، پھر جو بات زبان سے نکلے گی، وہ جاکے دل پر لگے گی اور طلبہ کی زندگیوں میں خوش گوار دینی انقلاب کا ذریعہ بنے گی۔
اللہ جل شانہ ہمیں اس طرح کی ایمانی زندگی نصیب فرمائیں، ہمارا مرنا اور جینا، پڑھنا اور پڑھانا صرف اسی کی رضا کے لئے ہو، صرف اسی کے لئے ہو۔ (آمین)
وصلی اللہ علی النبي الأ مي وعلی آلہ وصحبہ أجمعین۔