علم دین کی روایت میں استاد یا شیخ کی حیثیت جڑ اور بنیاد کی سی ہے۔ احادیث مبارکہ میں پہلے شاگردی کا ذکر آتا ہے اور اس کے بعد معلمی کا، مثال کے طور پر ایک حدیث کے مطابق آپ ﷺ نے فرمایا :((تَعَلَّمُوا الْعِلْمَ وَ عَلِّمُوهُ النَّاسَ))’’پہلے علم حاصل کرو اور پھر دوسرے لوگوں کو پڑھاؤ‘‘۔(سنن دارمی) ان الفاظ کی غایت بتاتے ہوئے محدثین لکھتے ہیں: لِتَكُونُوا كَامِلِينَ مُكَمِّلِین ’’ تاکہ تم خود کامل اور دوسروں کو مکمل کرنے والے بن جاؤ‘‘۔
حدیث اور اس کی شرح سے معلوم ہوتا ہے کہ انسان شاگردی کرنے ہی سے کامل بنتا ہے اور کامل بننے کے بعد ہی وہ دوسروں میں کمال پیدا کر کے انھیں کامل بنانے کا اہل بنتا ہے۔ متفق علیہ حدیث میں یہ مضمون بیان کیا گیا ہے کہ علم اٹھا لیا جائے گا لیکن اس علم کے اٹھائے جانے کی صورت کیا ہوگی اس کی وضاحت ان الفاظ سے ہوتی ہے((يَقْبِضُ الْعِلْمَ بِقَبْضِ الْعُلَمَاءِ))’’ اللہ علم کو اٹھائے گا، علما کو اٹھانے کے ذریعے سے‘‘ اسی حدیث میں آگے آتا ہے جب علماء نہیں رہیں گے تو لوگ جاہل لوگوں کو امام و شیخ بنا لیں گے، پھر وہ جاہل لوگ اپنی لا علمی کے باوجود لوگوں کی راہنمائی کرنے کی کوشش کریں گے تو خود بھی گمراہ ہوں گے اور دوسروں کو بھی گمراہ کریں گے ۔ اس حدیث میں آپ دیکھیں کہ علم کا مدار علماء کو بنایا گیا ہے اور یہ کہ جاہل آدمی کی پیشوائی کتنی خطرناک بات ہے۔ علماء محققین ہمیشہ علمی نا پختگی کے اس رجحان کی نفی فرماتے رہے ہیں ۔ کسی بزرگ کا قول ہے:من كان شيخه کتابه فخطأه أكثر من صوابه ’’جس شخص نے کتابوں کو اپنا شیخ و استاد بنا لیا تو اس کی خطائیں اس کی درستیوں سے بڑھ جاتی ہیں‘‘۔
عصر حاضر کے ایک محقق عالم و محدث شيخ علامہ محمد عوامہ دامت بركاتہم ہیں ۔ آپ ملک شام کے شہر حلب میں ۱۹۴۰ میں پیدا ہوئے اور علوم دینیہ کے حصول کے لیے شہر مدینہ اور ملک مصر کا سفر کیا۔ آپ کو دو جلیل القدر علماے دین، شیخ عبداللہ سراج الدین اور شیخ عبد الفتاح ابو غدۃ رحمہما اللہ سے طویل شرف تلمذ حاصل ہے۔ حال ہی میں شیخ عوامہ حفظہ اللہ نے اردن کے ایک ٹی وی چینل کے پروگرام’فاسئلو أهل الذكر‘ میں اس اہم مسئلے پر بات کی ہے ۔ معمولی کمی بیشی کے ساتھ ہم اس گفتگو کا خلاصہ پیش کرتے ہیں:
’’میدان علم میں ایک طالب علم کے لیے اساتذہ ومشائخ؛ اس کے آباء و اجداد کا درجہ رکھتے ہیں۔ جس طرح انسان نسب کے لیے اپنے گھر ، خاندان یا قبیلے کا محتاج ہوتا ہے کہ اسی سے اس کے نسبی آباء و اجداد معلوم ہوتے ہیں۔ اسی طرح علمی و روحانی نسب میں وہ اپنے اساتذہ کرام اور مشائخ عظام کا محتاج ہوتا ہے تاکہ علمی شجرے سے اس کی نسبت درست ہو سکے۔ جس شخص کا نسبی باپ معلوم نہ ہو تو وہ مجہول النسب کہلاتا ہے اور اگر اس نے ادھر ادھر کسی دوسرے کے ہاں پرورش پائی ہو تو وہ لے پالک کہلائے گا۔ اسی طرح اگر کسی کا کوئی استاد نہ ہو تو وہ علم کی دنیا میں یا تو مجہول النسب کہلائے گا یا لے پالک !!’’ جو ناخوب تھا وہی خوب ہوا ‘‘ کے مظاہر دور جدید میں بے شمار پائے جاتے ہیں۔ ان میں سے ایک یہ ہے کہ جس کا کوئی استاد نہ ہو اور وہ اپنے ذاتی مطالعے کی صلاحیتوں کو بروئے کار لا کر ، عالم یا استاد بن بیٹھتا ہے تو اس کی بہت تعریف کی جاتی ہے ۔ حالانکہ یہ ایک بری اور قابل مذمت بات تھی، لیکن آج کل یہ ایک خوبی اور قابل تعریف بات سمجھی جاتی ہے۔ حقیقت میں یہ شخص متکبر ہے کہ یہ اپنی عقل کا شاگرد بن کر اپنے ہی ذہن کے تراشیدہ راستے پہ چلے جا رہا ہے۔خلیفہ معتصم العباس کے سامنے جب امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کو لایا گیا تو وہاں اس وقت کا سرغنہ فتنہ احمد ابن ابی داؤد بھی موجود تھا۔ خلیفہ نے امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کو حکم دیا کہ احمد ابن ابی داؤد سے بات کریں۔ امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ نے ایک عظیم الشان جملہ کہہ کر اس حکم کو ٹال دیا کہ میں کیسے اس شخص سے بات کروں کہ جس کو میں نے آج تک کسی عالم کے دروازے پر نہیں دیکھا۔ قاضی عیاض رحمہ اللہ نے کتاب ’’ترتیب المدارک‘‘ میں ابو جعفر الداؤدی کے حالات لکھے ہیں۔ قاضی عیاض رحمہ اللہ نے ایک طرف تو ان کے علوم وفنون کی تعریف کی ہے لیکن ساتھ ہی ساتھ ان کی مذمت میں ایک جملہ لکھا کہ ابو جعفر الداؤدی نے اپنے بڑوں سے ترتیب کے مطابق علم حاصل نہیں کیا جس طرح علم حاصل کرنے کا حق تھا، یعنی کسی فقیہ سے اخذِ علم نہیں کیا۔ قاضی عیاض رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ جب ابو جعفر الداؤدی نے علمائے قیروان کو عبیدین کے خلاف خروج کی دعوت دی تو علماۓ قیروان نے صرف ایک جملہ کہہ کر بات سمیٹ دی کہ’’خاموش ہوجاؤ! تمہارا کوئی استاد نہیں‘‘۔پس جس شخص کا کوئی استاد نہیں جس نے اسے درجہ بدرجہ علم سکھایا ہو اور اس کی تربیت کی ہو تو ایسے شخص کی طرف بالکل التفات نہیں کرنا چاہیے چاہے اس نے بہت کچھ پڑھا یا لکھا ہو۔ اس لیے کہ جس کا استاد نہیں اس کے علم کی نہ کوئی حیثیت ہے اور نہ ہی کوئی اہمیت!!