یہ وہ گفتگو ہے کہ جو ایک عام آدمی کی سطح سے طاقت کے بڑے مراکز تک کی جارہی ہے، ملکی اور عالمی سطح پر اہل علم مفکرین اور دانشور اپنی اپنی سطح پر اپنے اپنے انداز میں اور اپنے اپنے پس منظر اور ایجنڈے کے ساتھ نوجوان علماء کیلئے راستے چن رہے ہیں پہلے ہم ان دائروں کا جائزہ لیتے ہیں کہ جن کی طرف نوجوان علما کو کھینچا جا رہا ہے۔
مقدمہ:
ایک نوجوان عالم کا حقیقی میدان علوم عربی ہیں ، حق تو یہ ہے کہ ایک نوجوان عالم مفسر بنے، محدث بنے، فقیہ بنے، مورخ بنے، مصلح بنے، داعی بنے، لیکن آج کے نوجوان عالم کو دوسرے راستوں کی طرف دھکیلا جا رہا ہے وہ کون سے راستے ہیں اور ایک نوجوان عالم ان کی طرف کیوں جا رہا ہے ابتدائی درجے میں ہم اس کا جائزہ لیتے ہیں۔
معاشرتی جبر:
ایک نوجوان جب مدرسے کی تعلیم حاصل کرکے حقیقت کی دنیا میں آتا ہے تو اسے یہ احساس دلایا جاتا ہے کہ وہ اس معاشرے میں مِس فٹ ہے، جدید معاشرے میں اس کیلئے کوئی جگہ نہیں ہے، وہ نوجوان عالم کہ جس کا حقیقی کام دینی علوم پر تحقیق تھا اب اسے ترقی کی ایک ایسی دوڑ میں شامل کردیا جاتا ہے کہ جس سے روکنے کیلئے اسے محنت کرنا تھی ، جس تہذیب کے راستے میں اس نوجوان عالم کو دیوار بننا تھا اسی تہذیب کی طرف اس نوجوان عالم کو دکھیل دیا جاتا ہے۔
نظام تعلیم پر اعتراض:
ایک بہت بڑا اعتراض مدرسے کے نظام تعلیم پر کیا جاتا ہے اور یہ باور کرانے کی کوشش کی جاتی ہے کہ جیسے اس نظم میں کچھ نہیں رکھا اور اس نظم سے صرف تقلیدی ذہن رکھنے والے ایسے رجال پیدا کیے جا رہے ہیں کہ جن کا اس جدید نظام میں کوئی حصہ نہیں۔
شارٹ کٹ:
بعض جگہوں پر نوجوان علماء کو شارٹ کٹس کی جانب متوجہ کیا جاتا ہے انہیں مختلف راستے دکھائے جاتے ہیں سوشل میڈیا پر برساتی مینڈکوں کی طرح ہر طرف ایک شور بپا ہوتا ہے اس طرف آؤ یہ ترکیب استعمال کرو وہ راستہ اختیار کرو یہاں پر کامیابی ہے وہاں پر کامیابی ہے درحقیقت ان آوازوں کے پیچھے لگ کر نوجوان علماء ان راستوں پر چلے جاتے ہیں کہ جن راستوں سے بچانے کا کام انہیں کرنا تھا۔
مختصر دوانیے کے کورس:
کہیں پر نوجوان علماء کو کالم نگاری سکھائی جا رہی ہے، کہیں انہیں کمپیوٹر کا ماہر بنایا جا رہا ہے، کہیں پر وہ صحافت کا کوئی کورس کر رہے ہیں، کہیں پر انہیں انگریزی سکھائی جا رہی ہے، کہیں پر وہ موٹیویشنل سپیکر بننے کے چکر میں ہیں، وہ تمام میدان کہ جن میں ایک خاص ریاضت کے بعد کمال حاصل ہوتا ہے انہیں پیسے لیکر ان نوجوان علماء کو پڑھانے کا جھانسہ دیا جاتا ہے کہ جو مختصر عرصے پڑھائے جانے والے علوم ہی نہیں ہیں۔
جدید تعلیم اور زبان کی مرعوبیت:
ایک نوجوان عالم کو جدید تعلیم اور انگریزی زبان سے اس درجہ مرعوب کردیا جاتا ہے کہ وہ اسی کو ترقی کی معراج سمجھنے لگتا ہے ، یہاں تک کہ بعض نوجوان عالم انگریزی سیکھنے کو عربی سیکھنے سے بھی بڑی چیز سمجھنے ہیں اور یہ ایک بہت بڑا مغالطہ ہے۔
کالج اور یونیوسٹی کی جانب رخ:
بہت سے علماء اپنی صلاحیت کی بنیاد ہر کالج و یونیوسٹی کا رخ کرتے ہیں اور تحقیق کے میدان میں محنت کرکے ایم اے، ایم فل اور پی ایچ ڈی کے اعلیٰ مدارج طے کرتے ہیں اور یہ ایک اچھی بات بھی ہے لیکن یہاں پر ایک نقصان یہ ہوتا ہے کہ مدرسے کے ماحول سے نکل کر یونیوسٹی کی روشنیوں میں جانے کے بعد ان کے اندر مرعوبیت پیدا ہو جاتی ہے اور جس نظام تعلیم سے پڑھ کر وہ عالم بنے ہیں وہی نظام تعلیم انہیں کمتر دکھائی دینے لگتا ہے، بہت سے نوجوان علماء تحقیق کے میدان سے نکل کر تجدد کی میدان کی طرف چلے جاتے ہیں اسی منظر نامے میں مدرسہ ڈسکورسز جیسے مگر مچھ انہیں نگلنے کیلئے تیار بیٹھے ہوتے ہیں، قابل افسوس امر یہ ہے کہ نوجوان علماء کا ایک طبقہ تجدد پسندوں کے حلقوں میں شام ہوجاتا ہے اور وہ ذہن کے جو تجدد کے خلاف استعمال ہونا تھا اسی کا پشتی بان بن جاتا ہے۔
راستہ کیا ہے:
جیساکہ عرض کی کہ ایک نوجوان عالم کا حقیقی کام تو یہ ہے کہ وہ مفسر بنے، محدث بنے، فقیہ بنے، مورخ بنے، یا سیرت رسول ﷺ پر کام کرے، دعوت کے میدان میں آگے بڑھے، لوگوں کی اصلاح کا بیڑا اٹھائے لیکن وہ دوسرے راستوں کی طرف چلا جاتا ہے یا دھکیل دیا جاتا ہے۔
ہمارے غلط رویے:
یہاں پر کچھ تذکرہ ان غلط رویوں کا بھی ضروری ہے کہ جن کی وجہ سے ہمیں نقصان ہوتا ہے اور ہم اپنے اصل کام سے دور ہوتے چلے جاتے ہیں۔
اختلاف کا طریقہ کار:
بہت سے نوجوان علماء مناظر اسلام بننے کے چکر میں اپنی ساری محنت دفاع مسلک پر لگا دیتے ہیں اور ان کی کل علمیت دوسرے مسالک کے رد اور تکفیر تک محدود ہوکر رہ جاتی ہے، علمی اختلاف ایک مستحسن چیز ہے لیکن اگر وہ اختلاف علمیت کی حدود تک محدود رہے جہاں وہ رد و تکفیر کے دائرے میں داخل ہوتا ہے وہیں نقصان شروع ہو جاتا ہے۔
سیاسی و تنظیمی تعصب:
بہت سے نوجوان دوران تعلیم ہی مختلف سیاسی جماعتوں اور تنظیموں سے منسلک ہو جاتے ہیں یہ امر ان کی علمی زندگی کیلئے زہر قاتل ہے، کسی تحریک، تنظیم یا سیاسی جماعت سے قلبی لگاؤ رکھنا ایک اچھی بات ہے لیکن دوران تعلیم ہی خود کو اس سے منسلک کرلینا درحقیقت خود کو ایک دائرہ کار میں مقید کرنے کے مترادف ہے اس سے ایک خاص قسم کی عصبیت پیدا ہوتی ہے اور پھر ایک ہی مسلک کے علماء باہم دست و گریبان دکھائی دیتے ہیں خاص طور پر ہمیں سوشل میڈیا ہر یہ مناظر کثرت سے دیکھنے کو ملتے ہیں۔
متکلم اسلام بننے کا مغالطہ:
بہت سے نوجوان علماء کو یہ مغالطہ لگتا ہے کہ مدرسے سے نکل کر اب وہ متکلم اسلام کے درجے پر فائز ہو چکے ہیں اور ان کے ذہن میں یہ واہمہ پیدا ہو جاتا ہے کہ شاید وہ شیخ الاسلام مفتی و جسٹس تقی عثمانی دامت برکاتہم یا محقق اسلام عبد الحلیم چشتی رح یا پھر ادیب اسلام ابن الحسن عباسی رح کے مقام پر فائز ہو چکے ہیں جبک یہ حقیقت سے کہیں دور کی بات ہے
بقول شاعر
دامِ ہر موج میں ہے حلقۂ صد کامِ نہنگ
دیکھیں کیا گُزرے ہے قطرے پہ گُہر ہونے تک
بغیر تیاری کے میدان میں کودنا:
ایک بہت بڑی غلطی یہ لگتی ہے کہ نوجوان علماء بغیر کسی تیاری کے جدید نظام ہائے حیات خاص کر الحاد و دہریت سے مکالمے کیلئے تیار ہو جاتے ہیں اور اب وہ یہ سمجھنے لگتے ہیں کہ وہ وقت کے رازی و غزالی ہو چکے ہیں، بغیر کسی تیاری کے اس میدان میں داخلہ بھی زہر قاتل کی طرح ہے زیادہ تر نوجوان عالم اس میدان میں میدان فتح کرنے کیلئے داخل ہوتے ہیں لیکن خود ہی شدید قسم کے اشکالات کا شکار ہو جاتے اور پھر ان اشکالات سے نکلنا ان کیلئے ممکن نہیں رہتا اور وقت کے ساتھ ساتھ یہ مرض بڑھتا چلا جاتا ہے۔
ادیب بننے کا شوق:
بہت سے نوجوان علماء کو یہ مغالطہ لگتا ہے کہ سوشل میڈیا پر چند سطور لکھنے کے بعد وہ اعلیٰ پائے کے ادیب شاعر اور کالم نگار بن چکے ہیں، جبکہ اس میدان میں ایک طویل ریاضت کی ضرورت ہے جن لوگوں نے اس میدان میں محنت کرکے ایک بلند مقام حاصل کیا ہے ان سے پوچھیے اس کے پیچھے خون جگر لگتا ہے اپنے آپ کو مارنا پڑتا ہے اس کے بعد کہیں جاکر آپ مولانا مجاہد الحسینیؒ، شورش کاشمیریؒ یا زکی کیفیؒ بنتے ہیں۔
تاریخی مباحث میں شمولیت:
ایک بہت بڑی غلطی تاریخی مباحث میں بغیر تاریخ کو پڑھے شمولیت ہے اس کا ایک بڑا نقصان یہ ہوتا ہے کہ کچھ علماء ناصبیت اور کچھ رافضیت کا شکار ہو جاتے ہیں اور پھر اپنی پوری زندگی اسی بے اعتدالی پر قائم رہتے ہیں۔
آپ یہ سب بن سکتے ہیں:
ایسا نہیں کہ نوجوان علماء میں یہ تمام مدارج طے کرنے کی صلاحیت نہیں بلکی سچائی تو یہ ہے کہ ان کے اندر یہ صلاحیت دوسروں سے کہیں زیادہ ہے اور وہ یہ کام کہیں بہتر انداز میں کر سکتے ہیں لیکن اس کیلئے وقت درکار ہے اس کا کوئی شارٹ کٹ نہیں یہ وہ مقام نہیں کہ جو سوشل میڈیا پر بیٹھ کر حاصل ہوجائے۔
طریقہ کار کیا ہو؟
٭ سب سے پہلے خود پر اور اپنے نظام تعلیم اور اپنی تعلیم پر مکمل اعتماد پیدا کیجئے اپنا سر فخر سے بلند کریں جان لیجئے کہ آپ دوسروں سے بہتر ہیں آپ کے سامنے موجود دوسرے تعلیمی نظام کسی طرح بھی مدرسے سے بہتر نہیں ہیں۔
٭ مدرسے سے نکل کا اپنا ایک خاص میدان متعین کیجئے آپ بیک وقت سبھی کچھ نہیں بن سکتے اور نہ ہی سب کچھ بننا آپ کی تعلیم کا مقصود ہے آپ کی تعلیم کا حقیق مقصود ایک اسلامی معاشرے کی تشکیل ہے۔
٭ سیاست ہو ، صحافت ہو ، تجارت ہو ، ایجوکیشن ہو غرض یہ کہ کوئی بھی میدان ہو یہ بات نہ بھولیے کہ اول و آخر آپ ایک عالم ہیں اگر آپ کا میدان آپ کے عالم ہونے کی تائید کرتا ہے اور اسے تقویت بخشتا ہے تو آپ درست سمت میں ہیں اور اگر ایسا نہیں تو پھر آپ غلط راستے پر چلے گئے ہیں آپ کے اندر اللہ رب العزت نے ایک مفتی بٹھا رکھا ہے اور وہ آپ کا دل ہے تو اپنے دل کو درست راستے پر رکھیے باقی سب بھی درست ہو جائے گا۔
٭ انگریزی زبان کا سیکھ لینا یا انگریزی کو مدارس کے نصاب میں شامل کرلینا ایک نئی زبان سیکھنے کے درجے میں تو مفید ہو سکتا ہے لیکن یہ علمیت کی نشانی نہیں ہے انگریزی زبان میں مہارت کا حاصل ہونا کچھ مشکل نہیں یہ سال چھ مہینے کی مشق سے حاصل ہو سکتی ہے اس لیے مدرسے سے نکلتے ہی اس کے پیچھے دوڑنا درحقیقت اپنے قیمتی ترین وقت کو برباد کرنے کے مترادف ہے۔
پڑھنے کے علوم؛
آپ کیلئے علوم عمرانیات کا پڑھنا بے انتہا مفید یے یاد رہے کہ منطق فلسفہ اور کلام ہمارے علوم تھے، تاریخ کہ جو ہم نے مرتب کی اپنی اصل میں ایک مکمل فن ہے آپ اپنی تاریخ پڑھیے اور اس میں مہارت حاصل کیجئے ، ہمارے مدارس میں پڑھایا جانے والا فلسفہ شاید اب اس درجہ مفید نہیں اس حوالے سے نصاب پر کام کی ضرورت ہے لیکن آپ فلسفے کا مطالعہ ازخود کر سکتے ہیں۔
دور جدید کے وہ علوم کہ جن کی جانکاری حاصل کرنا آپ کیلئے مفید ہو سکتی ہے ان میں سے کچھ یہ ہیں۔
دور جدید کے \” ازم \” جو دین کے طالب علم پر پڑھنے لازم ہیں یاد رہے کہ یہ مطالعہ تنقیدی نکتہ نگاہ critical thinking کے طریقے پر ہونا چاہیے۔
1. Secular Liberalism سیکولر لبرلزم
بنیادی سطح پر ایک سیاسی نظریہ جسکے کے اثرات اعتقادات معاشرت عبادات اور ثقافت پر مرتب ہوتے ہیں اور
اسی کے ذیل میں democracyیعنی جمہوریت کا مطالعہ کیا جائے۔
2. Marxism and Capitalism اشتراکیت اور سرمایہ داریت۔
دو ایسے نظام کے جو معاشی سطح پر انسانی فلاح کے داعی ہیں لیکن درحقیقت انسان کو جکڑنے والے ہیں، بینکاری اور اسلامی بینکاری نظام کو اسی کے ذیل میں پڑھا جا سکتا ہے۔
3. Imperialism and Orientalism سامراجیت اور استشراق۔
سامراج نے جس درجہ انسانی اور اسلامی دنیا کو نقصان پہنچایا ہے اسکی دوسری مثال نہیں دی جا سکتی خاص کر برطانوی سامراج کا اس میں بڑا حصہ ہے ، تحریک استشراق بھی سامراج کی کوکھ میں پلی اور اسی کی گود میں پروان چڑھی ہے دور جدید میں مذہب کی تشکیلِ نو اور مذہبی بنیادوں پر اعتماد کی دیواروں کو منہدم کرنے میں اسی فکر اور اسی کے وارث اداروں کا بڑا کردار ہے۔
4. Atheism and Agnosticism الحاد و تشکیک۔
الحادی منہج فکر اور اسکی فلسفیانہ بنیادیں در حقیقت مذہب تشکیک سے جنم لیتی ہیں اسی کے ذیل میں rationalism کا مطالعہ بھی ضروری ہے۔
5. Humanism and Feminism مذہب انسانیت اور فیمینزم۔
ثقافتی سطح پر مذہب انسانیت کو متعارف کروایا گیا تاکہ وحی کے ذریعے حاصل ہونے والی اخلاقی اقدار کو متروک قرار دیا جا سکے اسی طرح عورتیت کی تحریک درحقیقت خاندانی نظام کو توڑنے اور مذہب کے تخلیق کردہ معاشرے کی بنیادیں اکھاڑنے کے لیے تشکیل دیا گیا اسی کے ذیل میں gender fluidity اور sexualism کو بھی پڑھا جا سکتا ہے۔
6. Syncretism and Sufism تقارب ادیان اور مذہب رہبانیت۔
دور جدید میں جب انسان کو اس بات کا ادراک ہوا کہ مذہب کو مکمل طور پر ختم کرنا تو کجا دبانا بھی مشکل ہے تو اس نے جدید مذاہب تخلیق کرنے یا پچھلے مذاہب کی ایسی کھچڑی بنانے کی کوشش کی کہ جو اسے مطلوب ہوں یہ جدید دین اکبری \” وحدتِ ادیان \” کی نئی شکل تھی اسی کے ساتھ اسلامی تصوف سے پرے ایک جدید مذہب رہبانیت تخلیق کرنے کی کوشش کی گئی کہ جسکا مقصود رقص و موسیقی اور دیگر رسوم کو رواج دینا تھا۔
7. Modernism and Post Modernism جدیدیت اور ما بعد جدیدیت۔
دور جدید کی علمی و ادبی روایات مذہب کی طرف ان کا رویہ اور جدید مذہب کی رسومات کہ جو قدیم یونان سے مستعار لی گئی ہوں فلسفے کے مخصوص رجحانات اس عنوان کے تحت پڑھے جا سکتے ہیں۔
ان علوم کے نقائص:
یہ بھی انتہائی ضروری ہے کہ ان علوم کے نقائص بیان کر دیے جائیں اور مطالعہ کا طریقہ کار بھی سامنے رکھ دیا جائے۔
مذہب، سائنس (scientism) ، تشکیک ، الحاد اور ہمارا نوجوان عالم
عین ممکن ہے کہ یہ اصطلاح آپ کیلئے حیران کن ہو مذہب سائنس ! اگر ایسا ہے تو گوگل پر scientism کی اصطلاح سرچ کیجئے سائنٹزم کا سفر نیچریت سے شروع ہوتا ہے فلسفہ اور سائنس پڑھنے والے Thomas Henry Huxley کے نام سے ضرور واقف ہوں گے ہگسلے نے Agnosticism یعنی تشکیک کی اصطلاح ایجاد کی ، کہیں پر تشکیک کو skepticism کا خوبصورت نام دیا جاتا ہے اور کہیں اسے freethinking گردانا جاتا ہے، ان تمام اصطلاحات کو آپ گوگل پر سرچ کر سکتے ہیں چاہے وہ سکیپٹک ہو یا فری تھنکر ہو یا خود کو اگناسٹک کہلاتا ہو ان کے نزدیک empirical یعنی مشاہداتی یا تجرباتی امور ہی قابل قبول ہیں یعنی جو دیکھا جا سکتا ہے یا جو کسی لیبارٹری میں ثابت کیا جا سکتا ہے ، وہی ہے ، اس کے علاوہ اور کچھ نہیں ہے ، جیساکہ کہ اوپر تذکرہ ہوا کہ ہگسلے نے مذہب تشکیک کو باقاعدہ نام دیا لیکن اس سے پہلے اس کی بنیاد مذہب نیچریت کے بانی چالس ڈارون نے ڈال دی تھی ، ہمیں اکثر یہ مغالطہ لگتا ہے کہ شاید ارتقاء صرف ایک سائنسی یا حیاتیاتی مسئلہ ہے لیکن ایسا نہیں ہے اس کی معاشی ، معاشرتی ، نفسیاتی ، یہاں تک کہ سیاسی جہات بھی ہیں Thomas Robert Malthus کا نظریہ آبادی دیکھیے اور پھر ڈارون کا survival of the fittest دیکھیے ہر دو کے ڈانڈے ملتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں
After being mobbed in their carriage by poor, starving people, Charles and Erasmus Darwin are prompted to consider the human struggle for existence. As they discuss Malthus\’s assertion that human population would skyrocket if not for natural controls such as famine and disease, Charles has a new insight: other animals\’ populations must also be kept low by a struggle for existence, in which only the best adapted survive. The theory of natural selection is born. From Evolution: \”Darwin\’s Dangerous Idea\”
یہ سب بھی empirical thinking کا ہی کمال ہے سائنٹزم نے اسی نظریے کو آگے بڑھایا یہ مذہب اور یہ نظریہ اپنی ہر ہر سطح پر الہامی مذاہب کے مخالف کھڑا دکھائی دے گا خاص کر اس منہج فکر سے مابعد الطبیعیاتی امور کی مخالفت تواتر اور شدت کے ساتھ ملے گی ، ہمارے یہاں جب یہ نیچریت سرسید کے ہاتھوں مذہبی دائروں میں داخل ہوتی ہے تو سب سے زیادہ انکار یا انکار نما تفہیم مابعد الطبیعیاتی امور کی ہی ملتی ہے عقیدہ خدا تو اس تصور دین میں موجود رہتا ہے لیکن باقی تمام امور مشکوک ہوجاتے ہیں ، اسی منہج فکر کی روشنی میں روح ، معجزہ ، وحی یا بعض حلقوں میں کشف ، الہام اور امکان کرامت کے انکار کا نظریہ ابھر کر سامنے آتا ہے۔
یہ نظریہ سیاسی ، معاشی ، معاشرتی ، فکری غرض ہر ہر میدان میں اپنی مختلف شکلیں پیش کرتا ہے اسے ایک مخصوص ذہن درکار ہے کہ جس کا روحانیت سے دور دور تک واسطہ نہ ہو، ہم جب یہ گفتگو کرتے ہیں کہ دین کی مدافعت ہم تمہارے مادی سائنسی مذہبی پیمانوں پر نہیں کریں گے تو آج کا دین دار طبقہ بھی پریشان ہو جاتا ہے کیونکہ کسی نہ کسی درجے میں وہ بھی scientism سے متاثر ہے، ہمارا جدید اداروں کا نوجوان ہی نہیں قدیم مدرسے کا پڑھا ہوا نوجوان عالم بھی یہ سمجھنے سے قاصر ہے کہ جدید سائنس کے مقابل مذہب کو سائنس سے ہٹ کر کیسے ثابت کیا جائے، آج کے دور میں ایک منبر پر بیٹھا مولوی یا ایک علوم القرآن پر کام کرتا عالم دین ہر دو علم کا ایک خاص درجہ اس کو سمجھنے لگے ہیں کہ کسی طرح سائنس کے کسی پیمانے پر مذہب کو ثابت کردیں۔
مذہب، سائنس پر ثابت کیے جانے یا سائنسی علمیت پر ثابت کیے جانے کا معاملہ نہیں مذہب کے اپنے اصول ہیں مذہب کے اپنے پیمانے ہیں ہم پر ایسی کوئی ذمہ داری نہیں کہ ہم مذہب کے مابعد الطبیعیاتی حقائق کو سائنسی علمیت کے مطابق ثابت کریں، یہ ایسا ہی ہے کہ ایک مذہب کو دوسرے مذہب کے اصولوں پر ثابت کیا جائے۔
اور اسی کوشش کے نتیجے میں تشکیک پیدا ہوتی ہے اور یہ تشکیک ایک اسکول ، کالج ، یونیورسٹی کے طالب علم کے ذہن میں ہی پیدا نہیں ہوتی بلکہ ایک مدرسے سے نکلے ہوئے عالم دین کے ذہن میں بھی پیدا ہوتی ہے ، یہی وجہ ہے کہ ہمیں سوشل میڈیا پر علماء کے مزاج، ان کے رویے، ان کا لباس، ان کا نظریہ اور ان کا عقیدہ تک تبدیل ہوتا دکھائی دیتا ہے۔
مسئلہ ہمارے پیمانوں کے بدل جانے کا ہے اور اس کا حل اپنی اصل کی طرف لوٹنے کے سوا اور کچھ نہیں۔
قرآن و سنت رسول ﷺ کل بھی پہلی اور آخری دلیل تھے اور آج بھی پہلی اور آخری دلیل ہیں۔