مقدمہ
برصغیر پاک وہند کے مسلمانوں پر علماء حق کا بہت بڑا احسان ہے، جنہوں نے دینی مدارس اور جامعات قائم کیے، جس کی بدولت جہاں دینی علوم کی حفاظت واشاعت کا اہتمام ہوا، وہاں ایسے علماء حق پیدا ہوئے جنہوں نے اُمت کی دینی، ایمانی اور اخلاقی تربیت فرمائی، نیز میدانِ عمل میں انسانیت کی فلاح کے لیے عملی نمونے پیش کیے۔ انہی مدارس کی بدولت آج شعائرِ اسلام زندہ ہیں، منکر ومعروف کا فرق واضح ہے۔ علماء حق کی ان برگزیدہ ہستیوں میں محدث کبیر علامہ محمد یوسف بنوریؒ تھے، جنہوں نے اکابرِ اُمت کے تلمذ، صحبت ورفاقت کی بدولت اپنے آپ کو کندن بنایا، اور پوری زندگی علومِ نبوت کی تعلیم وتعلم اور تدریس و اشاعت میں گزاری۔ طویل تجربہ کی بنیاد پر منفرد نمایاں خصوصیات کے حامل ایک ایسے تعلیمی وتربیتی ادارے کی بنیاد رکھی جس سے علماء ربانین کی صفات کی حامل شخصیات اور رجال کار پیدا ہوئے، جنہوں نے علم وعمل کے میدان میں پوری دنیا کے اندر وہ کارنامے سرانجام دیے، جو مسلمانانِ عالم کے لیے مینارۂ نور کی حیثیت اختیار کرگئے، اور ایسے نقوش ثبت کیے، جو رہتی دنیا تک عقیدہ اور عمل کے میدان میں اسلامی شناخت کے حامل معاشرے کے قیام وبقاء کے ضامن وکفیل ہیں۔ حضرت بنوریؒ کی اس جہدِ مسلسل کو ایسی قبولیت ملی کہ ان کی زندگی ہی میں جامعہ کی حیثیت ایک بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی کی سی ہو گئی، جہاں سے پاکستان اور بیرونِ پاکستان کے ہزاروں تشنگانِ علومِ دینیہ فیض یاب ہو کر اپنے اپنے علاقوں، شہروں اور ملکوں میں جاکر کام کرنے لگے، حضرت بنوریؒ کی وفات کے بعد ان کے جانشینوں نے اس گلشن کو مزید ترقی دی، اور جامعہ کے دینی وفلاحی اثرات کو مزید وسعت دی۔ بہاء الدین زکریا یونیورسٹی ملتان پاکستان کے زیرِ اہتمام منعقد ہونے والی بین الاقوامی کانفرنس بعنوان ’’پاکستان میں اسلامی تعلیمات، مسائل اور امکانات‘‘ میں پیش کیے جانے والے اپنے مقالے کے لیے میں نے عظیم دینی پسِ منظر، منفرد کارکردگی اور روشن تاریخ کے حامل اس عظیم ادارے کو موضوعِ بحث بنایا ہے، تاکہ بین الاقوامی سطح پر میڈیا کے ذریعے دینی مدارس کے حوالے سے منفی پروپیگنڈے کے زور پر بنائے گئے تاریک ماحول میں اس مینارۂ نور کے روشن پہلو چمکیں، اور سرکاری جامعات کی دنیا میں اس ادارے کا صحیح اور درست تعارف ہو جائے، اور غلط فہمیوں کا ازالہ ہوجائے۔ مقالہ ایک مقدمہ، تمہید، تین فصلوں اور خاتمہ پر مشتمل ہے۔
مقدمہ میں خطۃ البحث (خاکہ) پیش کیا گیا، جو حسب ذیل ہے
تمہید:۔۔۔۔ ’’دینی مدارس کا تاریخی پسِ منظر‘‘
پہلی بحث:۔۔۔۔ ’’بانی جامعہ علامہ محمد یوسف بنوریv، شخصیت اور خدمات ‘‘
دوسری بحث:۔۔۔۔ ’’جامعۃ العلوم الاسلامیہ، تعارف ، تعلیمی وتربیتی نظام ‘‘
تیسری بحث:۔۔۔۔’’جامعۃ العلوم الاسلامیہ کی کارکردگی، خدمات اور اسلامی معاشرے پر اثرات‘‘
خاتمہ:۔۔۔۔’’ نتائجِ بحث اور تجاویز‘‘
تمہید: دینی مدارس کا تاریخی پسِ منظر
دینی مدارس ومکاتب کے تاریخی پسِ منظر کو بیان کرنے سے پہلے اس بات کی وضاحت مناسب ہے کہ ہر چیز کی طرح دینی مدارس کو دو زاویوں سے دیکھنے کی ضرورت ہے ایک ظاہری اعتبار سے اور دوسرا مقاصد اور روح کے اعتبار سے۔ مقاصد و روح کے اعتبار سے مدرسے کی حقیقت یہ ہے کہ وحی کے ذریعے ملنے والے علوم کو سینہ بسینہ آنے والی نسل کو منتقل کیا جائے۔ اس لحاظ سے اس مقدس مشن کا آغاز اس وقت سے ہوا، جب پہلی مرتبہ غارِ حرا میں ’’اِقْرَأْ‘‘ کے الفاظ کے ساتھ وحی کا نزول ہوا۔ وحی کی تعلیمات ہمہ گیر تھیں، جس میں انسانی زندگی گزارنے کے لیے جہاں راہنما اُصول بیان کیے گئے، وہاں ان اُصولوں کی تعلیم وتعلم کے طور طریقے بھی بیان ہوئے ہیں۔ پیغمبرِ اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ تعلیمات صحابہ کرام کو منتقل کیں، اور ان ارواحِ قدسیہ نے اپنے شاگردوں (تابعین) کو سکھائیں، یہ سلسلہ آج تک جاری ہے، اور تاقیامت جاری رہے گا۔ مقصد کے اعتبار سے مدرسہ، استاذ، شاگرد اور نصاب (علوم وحی) سے تعبیر ہے، تاہم ظاہری اعتبار سے مدرسے کے وجود کے لیے چند اضافی امور کی ضرورت ہے۔ گویا تمام ایسے مراکز کو دینی مدرسہ کے نام سے موسوم کیا جاسکتا ہے، جن میں پڑھنے پڑھانے کا خصوصی اہتمام ہو، بالفاظِ دیگر مدرسہ وہ جگہ ہے جس پر باقاعدہ ادارے کا اطلاق ہوسکے۔ اس تناظر میں مدارس کے تاریخی پسِ منظر کو چار ادوار میں تقسیم کیاجاسکتا ہے۔ پہلا: قرونِ اولیٰ کادور، دوسرا: قرونِ وسطی کا دور، تیسرا: ایسٹ انڈیا کمپنی کی برصغیر میں آمد سے پہلے کا دور ، اور چوتھا: ایسٹ انڈیا کمپنی کی آمد اور تسلُّط کے بعد کا دور۔
پہلا دور: قرونِ اُولیٰ
قرونِ اُولیٰ سے مراد عہدِ رسالت، عہدِ خلافتِ راشدہ اور قرونِ ثلاثہ مشہودلہا بالخیر ہیں۔ احادیث وسیرت میں ابتدائی مکاتب ومدارس کا تصورملتا ہے، تاہم یہ لغوی معنی کے اعتبار سے مدارس تھے، یعنی پڑھنے پڑھانے کی جگہ، عرفی معنی کے اعتبار سے مدارس کا سلسلہ چوتھی صدی ہجری کے بعد شروع ہوا۔ (۱) جن میں سے بعض حسبِ ذیل ہیں
۱:-مدرسہ صحنِ ابی بکر رضی اللہ عنہ
آپ کے گھر کے سامنے ایک چبوترہ تھا، جس پر آپ نماز ادا کرتے اور قرآن پڑھا کرتے تھے۔ مشرکین کے بچے اور عورتیں آپ کے گرد جمع ہو جاتے اور قرآن کو سنتے تھے۔ کفارِ مکہ کویہ ناگوار گزرا اور حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کو اس جگہ کو چھوڑنے پر مجبور کیا گیا۔ (۲)
۲:- مدرسہ دارِ ارقمؓ
ابتدائے اسلام میں کوہِ صفا کے دامن میں واقع بن ارقمؓ کے مکان میں یہ مدرسہ قائم تھا، جس میں چالیس صحابہ کرامؓ (مرد و عورتیں) تعلیم وتعلم میں مشغول رہتے تھے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خود معلم تھے، حضرت ابوبکر، حضرت حمزہ و حضرت علی رضی اللہ عنہم جیسے جلیل القدر صحابہ اس کے طالب علم تھے، حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے بھی اسی جگہ اسلام قبول کیا۔ یہاں قیام و طعام کا انتظام بھی تھا، یہ جگہ دارالاسلام کے نام سے مشہور ہوگئی تھی۔ حضرت عمررضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ”مسلمان ہونے والوں کو ایک ایک دو دو کرکے رسول اللہ ﷺ کسی صاحبِ حیثیت کے پاس بھیج دیتے تھے اور یہ لوگ وہاں رہ کر کھانا کھاتے تھے۔ میرے بہنوئی کے گھر بھی دو آدمی موجود تھے، ایک خبابؓ بن ارت تھے ،جو میرے بہنوئی اور بہن کے پاس جا جا کر قرآن کریم کی تعلیم دیا کرتے تھے۔ (۳)
۳:-مدرسہ أختِ عمرؓ
حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے بہنوئی اور بہن (سعید بن زید اور اُمِ جمیل فاطمہ رضی اللہ عنہما) کے گھر مکتب قائم تھا، جہاں حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے قرآن مجید کی تلاوت سنی اور مخالفت اور مار کٹائی تک نوبت پہنچنے کے بعد یہی واقعہ ان کے ایمان لانے کا باعث بنا۔ (۴)
۴:-مدرسہ مدینہ یا مدرسہ مصعب بن عمیرؓ
ہجرتِ مدینہ سے پہلے آپ نے حضرت مصعب بن عمیر اور ابن ام مکتوم رضی اللہ عنہما کو مدینہ روانہ فرمایا، جہاں وہ مدینہ والوں کو قرآن پڑھاتے تھے۔ (۵)
۵:- مدرسہ صفہ
تاہم مدینہ منورہ میں مدرسہ صفہ کا قیام عہدِ رسالت میں مدرسہ کے وجود کی نمایاں مثال ہے۔ مدرسہ صفہ میں پڑھنے والے صحابہ کرامؓ -جو اہل الصفہ کہلاتے تھے- کی کل تعداد ۴۰۰ تک پہنچتی ہے، بیک وقت صفہ کے طلبہ کی تعداد ستر ،اسی تک ہوتی تھی۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بھی اس مدرسہ کے طالب علم تھے۔ (۶)
عہدِ خلافتِ راشدہ
حضرت عمررضی اللہ عنہ نے اپنے عہدِ خلافت میں مکاتب ومدارس کو وسعت دی اور باقاعدہ نظام کے تحت ان کو آگے بڑھایا۔ حضرت ابو الدرداءرضی اللہ عنہ کو جامع مسجد دمشق میں قرآن پڑھانے کے لیے مقرر کیا، جہاں ایک موقع پر ۱۶۰۰ (سولہ سو) طالب علم ان کے درس میں شریک رہے۔ حضرت عمرq نے درسِ حدیث کے حلقے بھی قائم فرمائے۔
یہ سلسلہ قائم رہا اور آنے والے خلفاء اورامراء نے اس کو مزید وسعت دی، ہر بستی میں مدارس ومکاتب قائم تھے۔ امیرلوگ ان مدارس میں پڑھنے والے طلبہ کے قیام وطعام، اور لباس سمیت تمام ضروریاتِ زندگی مہیا کرنے کا اہتمام کرتے تھے۔
دوسرا دور: قرونِ وسطیٰ
مدارس ومکاتب کی تاریخ میں دو اداروں کو اس حوالے سے خاص اہمیت حاصل ہے کہ اب تک تعلیمی ادارے کی حیثیت سے قائم ہیں: ایک جامعۃ الزیتون، جو تیسری صدی ہجری میں تیونس کی جامع مسجدمیں قائم ہوا تھا۔ دوسرا جامع ازہر، جو فاطمی سلاطین کے دور میں مصر میں قائم ہوا، ۳۶۱ھ میں اس کی تکمیل ہوئی، اور چوتھی صدی ہجری کے اواخر سے اس کی تعلیمی زندگی کا آغازہوا، اور آج تک قائم ہے۔ تاہم علامہ مقریزیؒ کے مطابق باقاعدہ ادارے کی شکل میں مدرسے کی بنیاد رکھنے والے اہلِ نیشاپور ہیں، جنہوں نے مدرسہ بیہقیہ کی بنیاد ڈالی۔ علامہ مقریزی نے مصر میں قائم ۷۰ سے زائد مدارس کا تعارف کرایا۔(۷) چند دیگر مدارس بھی ہیں جن میں سلطان محمود غزنوی اور ان کے بیٹے سلطان مسعود کے قائم کردہ مدارس، اورمدرسہ نظامیہ، بغداد‘ دولتِ سلجوقیہ کے علم دوست وزیر نظام الدین طوسی (۴۸۵ھ) کا قائم کردہ مدرسہ شامل ہیں۔ امام غزالیؒ اس نظامیہ سے فیض حاصل کرنے والوں میں سے ہیں اور ان کے استاذ امام الحرمین اس مدرسہ کے صدر مدرس تھے۔ علاوہ ازیں بغداد میں تیس بڑے مدارس تھے۔
تیسرا دور:ہندوستان میں مدارسِ دینیہ کا قیام
ہندوستان میں اسلامی حکومت کا مستقل قیام ۶۰۲ھ/۶۰۶ھ سے شروع ہوا، ایک صدی گزرنے پر ہندوستان علوم وفنون کا گہوارہ بن چکا تھا۔ صرف دہلی شہر میں ایک ہزار اسلامی مدارس تھے۔ (۸) عالمگیر اورنگزیب کے عہد میں سندھ کے شہر ٹھٹھہ میں چارسو مدرسے تھے۔ دہلی، آگرہ ،لاہور، ملتان، جونپور، لکھنؤ، خیرآباد، پٹنہ، اجمیر، سورت، دکن، مدارس، بنگال اور گجرات وغیرہ بہت سے مقامات علم وفن کے مرکز تھے۔ صرف بنگال میں اسی ہزار مدارس تھے۔ ابتدائی تعلیم سے لے کر اعلیٰ تعلیم تک مفت تھی، علماء وطلبہ کسبِ معاش سے مطمئن ہو کر فراغت وسکونِ خاطر کے ساتھ درس وتدریس میں مشغول رہتے تھے۔
چوتھا دور:ایسٹ انڈیا کمپنی کی آمد کے بعد مدارس کا نظام
ایسٹ انڈیا کمپنی کی برصغیر میں آمد کے بعد ہندوستان کا جہاں عمومی سیاسی وانتظامی نقشہ تبدیل ہونے لگا، اور کمپنی آہستہ آہستہ ملک پر قابض ہونے لگی، تاآنکہ کمپنی نے انیسویں صدی عیسوی کے اوئل تک پورے ہندوستان پر اپنا تسلط قائم کیا، وہاں تعلیمی نظام بھی یکسر تبدیل کردیا گیا، مدارس کے تمام اوقاف کو۱۸۳۸ ء میں ضبط کرلیاگیا اور اصحابِ خیر کی طرف سے مقرر کردہ وظائف وتنخواہیں تو حکومت کی تبدیلی کے ساتھ ہی موقوف ہو چکے تھے، جس کے نتیجے میں سینکڑوں خاندان تباہ ہوگئے۔ تعلیمی ادارے یک قلم مٹ گئے، لیکن ان حوادثاتِ زمانہ کے باوجود چند اصحابِ عزیمت علماء موجود تھے، جنہوں نے مالی امداد ومعاونت کے بغیر اشاعتِ علومِ دینیہ کا سلسلہ جاری رکھا۔
دوسری طرف ۱۸۱۳ء کے ایک قانون کے ذریعے عیسائیت کی تبلیغ کے لیے مشن سکول کھولنے کا موقع دیا گیا۔ ان سکولوں کو کمپنی کی پشت پناہی حاصل رہی، سہولتیں اور مالی امداد فراہم کی جانے لگیں، اور یہاں کے فضلاء کو ملازمتوں کی لالچ دی گئی۔
یہ نظامِ تعلیم مسلمانوں کی مذہبی زندگی، قومی روایات اور علوم وفنون کے لیے تباہ کن اور مہلک حربہ تھا۔ ۱۸۵۷ء کے ہنگامے نے دلوں کو ہیبت زدہ، دماغوں کو ماؤف، روحوں کوپثرمردہ اور پوری قوم کو مفلوج کردیا۔ تعلیم سے بے رغبتی اور مذہب سے بے گانگی میں روزافزوں اضافہ ہوتا رہا۔ ایسے حالات میں اربابِ علم وفضل نے محسوس کیا کہ مسلمانوں کے مذہبی وجود کو بچانے کے لیے دینی تعلیم کے سوا کوئی چیز فائدہ مند اور کارگر نہیں، اس مقصد کے لیے قدیم تعلیمی نظام کی نشأۃِ ثانیہ کو ضروری سمجھا گیا۔ حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی v نے اپنے ساتھیوں سمیت توکلاً علی اللہ ۱۸۶۷ء میں دیوبند، ضلع سہانپور کی تاریخی مسجدچھتہ میں دارالعلوم کی بنیاد رکھ دی، جو بہت جلد دنیا ئے اسلام کی بہت بڑی درس گاہ بن گئی۔ شیخ الہند مولانا محمود حسنؒ، شیخ المحدثین حضرت مولانا خلیل احمد سہارنپوریؒ، حکیم الامت مولانا محمد اشرف علی تھانویؒ جیسے آفتابِ علم وفضل دیوبند نے پیداکیے تھے۔ (۹)شیخ الہندؒ کے شاگردوں میں آفتابِ علم وفضل کا ایک نمایاں نام مولانا انور شاہ کشمیری v کا ہے اور علامہ کشمیری v کے فیض یافتہ ہستیوں میں سب سے نمایاں نام علامہ محمد یوسف بنوری v کا ہے۔ دارالعلوم دیوبند سے فیض یافتہ ان علمی ہستیوں نے دارالعلوم دیو بند کے ساتھ ساتھ دیگر شہروں اور بستیوں میں مکاتب ومدارس قائم کیے، پاکستان کے بعد یہاں بھی مدارس کی تأسیس کا سلسلہ شروع ہوا، اور کئی ایک عظیم مدارس وجامعات منصہ شہود پر آئے، جن میں ایک نمایاں نام جامعۃ العلوم الاسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن کراچی ہے، جس کے بانی علامہ محمد یوسف بنوری v ہیں۔
پہلی بحث:۔۔۔علامہ محمد یوسف بنوری رحمۃ اللہ علیہ، شخصیت، خدمات
نام ونسب
سید محمد یوسف بن محمدزکریا بن میر مزمل شاہ ابن میر احمد شاہ بن میر موسیٰ بن غلام حبیب بن رحمۃ اللہ بن عبدالاحد بن حضرۃ محمد اولیاء بن سید آدم البنوری بن اسماعیل بن بھوا بن حاجی یوسف بن یعقوب بن حسین بن دولت بن قلیل بن سعدی بن قلندر ابن حضرت محمد العلوی بن علی بن اسماعیل بن ابراہیم بن موسیٰ کاظم بن جعفر الصادق بن محمد الباقر بن زین العابدین علی، بن سید ناحسین ،بن امیر المؤمنین علی بن أبی طالب کرم اللہ وجھہٗ۔ (۱۰)
جائے پیدائش اور وطن
۶؍ربیع الثانی ۱۳۲۶ھ مطابق۱۹۰۸ء ضلع مردان ، پاکستان کے ایک چھوٹے سے قصبے مہابت آباد میں آنکھ کھولی،(۱۱) آپ کے جدِ اعلیٰ سید آدم ضلع انبالہ، ہندوستان، کے قصبہ بنور میں قیام پذیر رہے تھے، اسی نسبت سے خاندانِ بنوریؒ کہلاتا ہے، جو افغانستان، کوہاٹ اور پشاور میں آباد ہے۔(۱۲)
عملی زندگی کا آغاز
قرآن مجید اور دیگر ابتدائی علوم اپنے والد سید محمد زکریاؒ، ماموں شیخ فضل حمدانی بنوریؒ سے پڑھے اور والیِ افغانستان امیر حبیب اللہ خان کے زمانہ میں کابل، افغانستان ، میں شیخ عبداللہ بن خیر اللہ پشاوریؒ( متوفی:۱۳۴۰ھ) سے صرف ونحوکی ابتدائی کتابیں پڑھیں۔ مختلف فنون کی متوسط درجے کی کتابیں پشاور اور کابل میں شیخ عبدالقدیر لمقانی ؒ اور شیخ محمد صالح قیلغویؒ سے پڑھیں۔ ابتداء ہی سے ادبِ عربی میں خاص ذوق رکھتے تھے، اعلیٰ علوم کی تحصیل کے لیے دارالعلوم دیوبند کے لیے رختِ سفر باندھا، جہاں اپنے وقت کے رجالِ علم سے تفسیر، حدیث، فقہ اور اُصولِ فقہ میں اکتسابِ علم کیا، بالخصوص علامہ شبیر احمد عثمانی ؒ اور علامہ انورشاہ کشمیری رحمۃ اللہ علیہما سے خصوصی مناسبت قائم ہوئی۔ ۱۳۴۵ھ تا۱۳۴۷ھ دو سال تک دیوبند میں قیام رہا اور جب علامہ عثمانی اور علامہ کشمیری رحمۃ اللہ علیہما دیوبند سے جامعہ اسلامیہ، ڈابھیل سورت منتقل ہوئے تو حضرت بنوریv بھی اپنے رفقاء سمیت اپنے شیوخ کے ساتھ ڈابھیل منتقل ہوئے، اور وہیں پر علمِ حدیث کی تکمیل کی، اور حضرت کشمیریv کے علوم کے امین بنے۔ فراغت کے بعد چار سال تک پشاور میں رہے۔ پہلے جمعیت العلماء کے صدر کی حیثیت سے سیاسی خدمات انجام دیتے رہے، اور بعد میں سیاست سے اپنے آپ کو فارغ کرکے مدرسہ رفیع الاسلام میں تدریس شروع کی۔ حضرت کشمیریv کی وفات کے بعد جامعہ اسلامیہ ڈابھیل میں مدرس کی حیثیت سے تقرر کیاگیا، جہاں شیخ الحدیث اور صدر المدرسین کے منصب تک پہنچے اور ۱۹۵۱ء میں پاکستان منتقل ہونے تک جامعہ اسلامیہ میں شیخ الحدیث کے منصب پر فائزرہے۔ (۱۳)
پاکستان کی طرف ہجرت
۱۶؍جنوری ۱۹۵۱ء میں اپنے استاذ علامہ شبیر احمد عثمانی ؒ اور مولانا بدر عالم میرٹھیؒ کے مشورہ سے پاکستان منتقل ہوئے، بعض وزراء نے استقبال کیا، اور علامہ عثمانی ؒ کے مشورہ پر دارالعلوم ٹنڈو الہ یار سندھ، میں شیخ التفسیر کی حیثیت سے تین سال تک خدمات سرانجام دیں۔ (۱۴)
جامعہ علومِ اسلامیہ بنوری ٹاؤن کا قیام
حکمتِ خداوندی کو کچھ اور منظور تھا، آپ کی ذات والا صفات سے کراچی جیسے عروس البلاد شہر میں دینی علوم کی اشاعت وتبلیغ کا عظیم الشان کام لینا تھا، جہاں آپ نے نیوٹاؤن میں مدرسہ عربیہ کے نام سے مدرسہ کی بنیاد رکھی، بعد میں جس کا نام جامعہ علومِ اسلامیہ رکھا گیا، جس کی تفصیل اس مقالہ کا موضوع ہے۔ (۱۵)
حضرت بنوری رحمۃ اللہ علیہ کاعلمی مقام
کسی بھی علمی شخصیت کے علمی مقام کا اندازہ ان کی تعلیمی، تدریسی اور تصنیفی خدمات، معاصرین کے اعتماد، اساتذہ وشیوخ اور تلامذہ سے لگایا جاسکتا ہے۔ حضرت بنوریؒ کی علمی استعداد، قوتِ حافظہ، تمام علوم و فنون پر قدرت اور تدریس، تصنیف اور وعظ و ارشاد میں مہارتِ تامہ ضرب المثل تھی، دنیا جس کی شاہد اور معترف ہے اور جس کا بین ثبوت آپ کی علمی خدمات اور علماء کا اعتماد ہے۔ ڈابھیل کے عرصۂ تدریس ہی میں مولانا شبیر احمد عثمانی ؒ، مولانا حسین احمد مدنی ؒ اور قاری محمد طیب صاحبؒ مہتمم دارالعلوم دیوبند کی طرف سے دارالعلوم دیوبند جیسے عظیم علمی مرکز میں منصبِ افتاء اور مسندِ تدریس پر فائزہونے کی پیشکش کی گئی۔ مولانا سید سلیمان ندویؒ نے جامعہ احمدیہ بھوپال میں شیخ الحدیث کا منصب سنبھالنے کی پیشکش کی، تاہم آپ نے ڈابھیل میں تدریسی خدمات سرانجام دینے کو ترجیح دی۔ ٹنڈوالہ یار سندھ میں عرصۂ تدریس کے دوران بھی مختلف مدارس کی طرف سے شیخ الحدیث کی حیثیت سے تعیناتی کی پیشکش آتی رہی، تاہم دینی علوم کی بہتر تدریس کے حوالے سے آپ کی اپنی ایک سوچ تھی۔ نصاب میں کیا مثبت تبدیلیاں ہوں؟! طریقۂ تدریس کیا ہو؟! نیز مختلف فنون میں متخصصین کی جماعت تیار کی جائے۔ اس لیے آپ اپنے ادارے کے قیام کے حوالے سے مسلسل سوچ وبچار اور استخارہ کرتے رہے، تاکہ آزادانہ طریقے پر کام کرسکیں، تاآنکہ ادارے کا قیام وجود میں آیا۔ (۱۶)
اساتذہ ومشائخ
ابتدائی کتب جن اساتذہ کرام سے پڑھیں ان کا تذکرہ شروع میں گزرگیا۔ علومِ عالیہ بالخصوص احادیث میں آپ نے جن جہابذۂ علم سے استفادہ کیا، ان کے اسماء گرامی حسبِ ذیل ہیں:
۱:-علامہ حافظ محمد انور شاہ کشمیری رحمۃ اللہ علیہ ۲:-شیخ عبدالرحمن امروہی رحمۃ اللہ علیہ
۳:-مولانا حسین احمد مدنی رحمۃ اللہ علیہ ۴:-علامہ شبیر احمد عثمانی رحمۃ اللہ علیہ
۵:-مفتی عزیز الرحمن رحمۃ اللہ علیہ ۶:-شیخ حسین بن محمد طرابلسی رحمۃ اللہ علیہ
۷:-علامہ محمد زاہد کوثری رحمۃ اللہ علیہ ( وکیل شیخ الاسلام، استنبول، ترکی)
۸:-شیخ عمر بن احمدان المقدسی المالکی المغربی رحمۃ اللہ علیہ
۹:-شیخ محمد بن حبیب اللہ مایأبی الجکنی الشنقیطی رحمۃ اللہ علیہ
۱۰:-شیخ خلیل خالدی المقدسی رحمۃ اللہ علیہ
۱۱:-شیخہ امۃ اللہ بنت الشیخ عبدالغنی رحمۃ اللہ علیہا۔ (۱۷)
تلامذہ
آپ کے تلامذہ کی فہرست بہت طویل ہے، پشاور، ڈابھیل اور ٹنڈو الہ یار میں تدریسی خدمات سرانجام دینے کے بعد آخر میں اپنے قائم کردہ مدرسہ عربیہ اسلامیہ میں مسلسل ۲۴سال تدریس کا فریضہ سرانجام دیا، اس طویل عرصے میں ہزاروں علماء ومفتیان کرام نے آپ سے استفادہ کیا۔ آپ کے تمام تلامذہ کا استقصاء اس مختصر مقالہ میں ناممکن ہے، تاہم ان چند نمایاں شاگردوں – جنہوں نے آپ کے قائم کردہ جامعہ میں نمایاں خدمات سرانجام دیں- میں مولانا بدیع الزمانؒ، ڈاکٹر مولانا محمد حبیب اللہ مختار شہیدؒ، مولانا سیدمصباح اللہ شاہؒ ، مفتی احمد الرحمنؒ ،مولانا محمد امین اورکزئی شہیدؒ ، مولانا عبدالمجیددین پوری شہید رحمۃ اللہ علیہم ، مولانا ڈاکٹر عبدالرزاق اسکندر، مولانا محمد انور بدخشانی، مولانا قاری مفتاح اللہ مدظلہم العالی شامل ہیں۔
آپ کے شاگردوں میں بعض عرب علماء بھی ہیں، جنہوں نے آپ سے اجازتِ حدیث حاصل کی۔ (۱۸)
تدریسی خدمات
آپ نے زندگی بھر درس وتدریس کا مشغلہ اپنائے رکھا، تمام علوم وفنون کی تدریس کی ، بالخصوس تفسیرِقرآن کی تدریس میں آپ کو ملکہ راسخہ حاصل تھا۔ اپنے اساتذہ کے حکم پر دارالعلوم ٹنڈو الہ یار میں شیخ التفسیر کی حیثیت سے تعیناتی آپ کی مہارتِ تامہ فی التفسیر کی کافی شہادت ہے، لیکن جس علم کی تدریس نے آپ کی علمی زندگی کو چارچاند لگائے، وہ کتبِ حدیث، بالخصوص صحاحِ ستہ کی تدریس ہے۔ جامعہ اسلامیہ ڈابھیل میں آپ نے مولانا عبدالرحمن امروہویؒ اور مولانا بدرِ عالم میرٹھیؒ کی موجودگی میں طلبہ کے انتخاب پر صحیح بخاری، سننِ ترمذی اور سننِ ابی داؤد جیسی اہم کتابیں پڑھائیں اور پاکستان منتقل ہونے کے بعد اپنے قائم کردہ مدرسہ میں تاحیات کتبِ حدیث پڑھاتے رہے۔ صحیح معنوں میں اپنے زمانے کے محدث اور شیخ الحدیث تھے۔ ایسے تفسیری وحدیثی نکات بیان فرماتے کہ علماء وطلبہ انگشت بدنداں رہ جاتے۔ مولانا محمد امین اورکزئی شہید رحمۃ اللہ علیہ نے آپ کے علمی نکات کو بعنوان :’’خوانِ بنوریؒ سے خوشہ چینی‘‘ جمع کیاہے، جومقالاتِ امین میں اسی عنوان سے چھپا ہے۔(۱۹) اور ماہنامہ بینات کراچی میں بھی قسط وار چار اقساط میں بعنوان ’’خوانِ بنوریؒ سے مولانا اورکزئیؒ کی خوشہ چینی‘‘ چھپ گیا ہے۔(۲۰)
تنظیمی مناصب
حضرت بنوری رحمۃ اللہ علیہ تدریس وتالیف کے ساتھ علمی مجالس اور دینی تحریکات میں بھی بھرپور حصہ لیتے رہے، جس کا اندازہ ان مناصب سے ہوتا ہے، جن پر آپ مختلف حیثیتوں سے فائز رہے، ذیل میں ان کی فہرست ملاحظہ ہو:
۱:-صدر جمعیت علماء، پشاور ۲:-صدر جمعیت علماء ہند، گجرات ، ہند
۳:-رکن اوقاف کمیٹی، بمبئی، ہند ۴:-رکن مجلسِ علمی،ڈابھیل، سورت
۵:-صدر مدرس وشیخ الحدیث جامعہ اسلامیہ،ڈابھیل ۶:-شیخ التفسیر دارالعلوم الاسلامیہ، ٹنڈو الہ یار
۷:-بانی ومہتمم وشیخ الحدیث جامعۃ العلوم الاسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن کراچی
۸:-رکن مجمع علمی عربی، دمشق، سوریا ۹:-رکن مجمع البحوث الاسلامیہ، قاہرہ، مصر
۱۰:-رکن سلیکشن بورڈ، کراچی یونیورسٹی ۱۱:-صدر مجلسِ تحفظِ ختمِ نبوت ،پاکستان
۱۲:-صدر وفاق المدارس العربیہ پاکستان ۱۳:-صدر مجلس عمل، پاکستان
۱۴:-بانی وصدر مجلسِ دعوت وتحقیق اسلامی، کراچی
۱۵:-نگران مجلسِ علمی، کراچی، جوہانسبرگ، ساؤتھ افریقہ،ہندوستان
۱۶:-صدر جمعیت اتحاد المدارس العربیہ ۱۷:-رکن اسلامی نظریاتی کونسل، اسلام آباد (۲۱)
علمی وتبلیغی اسفار
سال میں دو مرتبہ حرمین شریفین کے مبارک سفر کی سعادت حاصل کرنا آپ کا معمول تھا۔ قاہرہ مصر کے تین اسفار کیے۔ پہلے۱۹۳۷ ء میں بعض کتب کی طباعت کی نگرانی کی غرض سے تشریف لے گئے، بعد ازاں ! کانفرنسز میں شرکت کی غرض سے تشریف لے گئے۔ کانفرنس بعنوان: ’’رسالۃ المسجد، مکۃ المکرمہ، رمضان ۱۳۹۵ھ ستمبر ۱۹۷۵ء‘‘ میں شرکت فرمائی، اس کانفرنس میں ’’المسجد محور للنشاط ومرکز للتوجیہ الروحي والفکري للأمۃ‘‘ کے عنوان سے مقالہ پیش کیا۔ ’’مؤتمر الدعوۃ الإسلامیۃ، ۱۳۹۰ھ/۱۹۷۰ء طرا بلس، لیبیا‘‘ میں پاکستانی وفد کے رئیس کی حیثیت سے شرکت فرمائی۔ اکثر ممالک میں علمی وتبلیغی اسفار کیے، جیسے: ترکی، لبنان، اردن، فلسطین، عراق، لیبیا، سوریا، ایران، افغانستان، تنزانیہ، نائجیریا، کینیا، یوگنڈا، موزمبیق، یونان، فرانس ،برطانیہ، جنوبی افریقہ، سوئٹزرلینڈ، اسپین، ہندوستان۔ (۲۲)
تصنیفی خدمات
تصنیف وتالیف اور انشاء میں آپ کو ملکہ حاصل تھا۔ آپ بیک وقت عربی، فارسی، اردو، پشتو کے ماہر ادیب تھے۔ بڑی روانی اور سلاست کے ساتھ مافی الضمیر کو صفحۂ قرطاس پر اُتارتے۔ ادبِ عربی میں تو آپ کی تحریریں عرب ادیبوں کی تحریروں سے کسی طرح کم درجے کی نہیں ہوتی تھیں۔ اس وصف میں امتیازی حیثیت حاصل تھی،اس لیے آپ کی اکثر کتابیں عربی زبان میں ہیں، جو علوم وفنون کے ساتھ ساتھ ادبِ عربی کی شاہکار ہیں۔ تصانیف حسبِ ذیل ہیں:
۱:- بغیۃ الأریب فی مسائل القبلۃ والمحاریب
۲:-نفحۃ العنبرفی حیاۃ الشیخ أنورؒ، طبع، دہلی ۱۳۵۳ھ
۳:- یتیمۃ البیان فی شئیی من علوم القرآن ، طبع: دہلی ۱۹۳۶ء
۴:-معارف السنن شرح جامع الترمذي ، طبع: مجلس الدعوۃ والتحقیق الاسلامي، کراچی، صحاحِ ستہ کی مشہور کتاب ’’جامع ترمذی‘‘ کی شرح ہے، جو چھ جلدوں پر مشتمل عربی زبان کی شاہکار ہے۔
۵:-عوارف المنن، مقدمۃ معارف السنن
۶:- الأستاذ المودودي وشیء من حیاتہٖ وأفکارہٖ
۷:- نص الختام فی مسألۃ الفاتحۃ خلف الإمام، طبع: کراچی ۱۹۶۶ء
۸:-کتاب الوتر، مطبوعہ ۱۹۶۳ء، کراچی ۔ ۹:-المقدمات البنوریۃ
۱۰:-القصائد البنوریۃ ۱۱:-بصائروعبر۔ (۲۳)
وفات حسرت آیات
بروز پیر، ۳؍ذو القعدۃ، ۱۳۹۷ھ مطابق ۱۷؍اکتوبر۱۹۷۷ء، علم وعمل کا یہ آفتاب غروب ہوا، آپ اسلامی نظریاتی کونسل، اسلام آباد کے رکن کی حیثیت سے اجلاس میں شرکت کے لیے اسلام آباد تشریف لائے تھے، جہاں دل کا دورہ پڑا، جو جان لیوا ثابت ہوا۔ جسدِ خاکی کراچی منتقل کردیا گیا، اور ایک جم غفیر نے جنازہ میں شرکت کی۔ کراچی کو کسی عالم کے اتنے بڑے اجتماع کا شرف حاصل ہوا۔ جامعۃ العلوم الاسلامیہ کی حدود میں تدفین عمل میں آئی، جہاں قبرپر فاتحہ خوانی کے لیے تلامذہ اور متعلقین کی آمد رہتی ہے۔ (۲۴)
دوسری بحث:جامعۃ العلوم الاسلامیہ، علامہ بنوری ٹاؤن، تعارف، تعلیمی وتربیتی نظام
علامہ محمد یوسف بنوری رحمۃ اللہ علیہ کی تمام دینی وعلمی خدمات کی عملی صورت اور عنوان آپ کا قائم کردہ مدرسہ جامعۃ العلوم الاسلامیہ ہے۔ اس مدرسہ کا تصور، قیام اور تعمیر وترقی کے بارے میں اگر یہ کہا جائے کہ یہ الہامی ہے، تو اس میں کوئی مبالغہ نہیں ہوگا۔ زندگی بھرتدریس کے شعبے سے منسلک رہے، اپنے تدریسی تجربے کی روشنی میں تعلیم وتربیت کے حوالے سے آپ کی ایک سوچ بن گئی تھی، جس کو عملی شکل دینے کے لیے ایسے ماحول کی ضرورت تھی، جس میں آپ آزادانہ طریقے سے وہ تبدیلیاں لاسکیں، جو آپ چاہتے تھے۔ اسی سوچ کے نتیجے میں آپ نے ایک تعلیمی ادارے کی بنیاد رکھنے کا ارادہ کیا۔ یہ ایک مشکل کام تھا، فرماتے ہیں:
اس عظیم الشان منصوبے کے لیے اخلاص، ہمت، عزم، جہدِ مسلسل، اور صبر واستقامت کے ساتھ ساتھ کامل استعداد والے رفقاء کی ٹیم کی ضرورت تھی، مالی امداد کے بغیر بھی کوئی منصوبہ پایۂ تکمیل تک نہیں پہنچتا اور میں سمجھتا ہوں کہ ان تمام حوالوں سے میں تہی دست ہوں، اس لیے حرمین شریفین کے سفر کا ارادہ کیا، تاکہ ان مقدس مقامات میں استخارہ کرسکوں، اور اللہ تعالیٰ سے دعائیں مانگ سکوں۔
چنانچہ ۴؍ذو الحجہ ۱۳۷۳ھ کو حجِ بیت اللہ کے لیے رختِ سفر باندھا۔ بیس دن مکہ مکرمہ اور تیس دن مدینہ منورہ میں قیام فرمایا۔ اور دعاؤں واستخارہ کے بعد دارالعلوم الاسلامیہ ٹنڈوالہ یار سندھ سے مستعفی ہو کر مستقل ادارے کی بنیاد رکھنے کا عزم کیا۔ جامع مسجد نیو ٹاؤن -جس کی ابھی صرف بنیادیں رکھی گئیں تھیں- میں اللہ کا نام لے کر ادارے کی بنیاد رکھی۔ (۲۵)
مثالی مدرسہ، حضرت بنوری رحمۃ اللہ علیہ کی نظر میں
حضرت بنوری رحمۃ اللہ علیہ فرمایا کرتے تھے کہ: زندگی بھر کے تعلیمی، تدریسی اور انتظامی تجربے کے بعد مجھے خیال ہوتا تھا کہ اگر مستقبل میں مجھے ادارہ قائم کرنے کی توفیق ملی، تو اس میں حسبِ ذیل اُمور کا اہتمام کروں گا:۱:-رائج الوقت نصاب اور نظام میں مناسب تبدیلیاں کرنا، جس سے پیدا ہونے والے علماء عصر حاضر میں اسلام کی صحیح خدمت کرسکیں۔ ۲:-اسباق اور تعلیم کی نگرانی کی طرح طلبہ کی دینی واخلاقی نگرانی کرنا۔ ۳:- طلبہ کے افکار کی اصلاح کرنا، تاکہ وہ دنیاوی جاہ ومنصب کے حصول کے بجائے خالص رضاء الہٰی اور خدمتِ اسلام کے لیے دینی تعلیم حاصل کریں۔ ۴:- عصرِ حاضر کے مطابق طلبہ میں لکھنے اور بولنے کی مہارت پیدا کرنا، بطور خاص عربی زبان میں لکھنے، بولنے اور عربی مصادر سے استفادہ کرنے کی صلاحیت اُجاگر کرنا۔ ۵:- علم التاریخ سے طلبہ کو متعارف کرانا اور کتبِ تاریخ کا مطالعہ کروانا۔ ۶:-منطق و فلسفہ کے بجائے علومِ نقلیہ پڑھنے کا زیادہ اہتمام کرنا۔ ۷:-درسِ نظامی کی تکمیل کے بعد تخصصات کرانا، تاکہ علوم میں مہارت حاصل ہو۔ ۸:- علمی، عملی اور صلاح و تقویٰ کے اعتبار سے کامل مدرسین کا تقرر۔
مدرسہ عربیہ سے جامعۃ العلوم الاسلامیۃ تک
ان خطوط پر آپ نے کام کا آغاز کیا۔ ابتداء ًمدرسہ کا نام ’’مدرسہ عربیہ‘‘ رکھا، بعد میں معلوم ہوا کہ اس نام سے ایک اور ادارہ بھی کراچی میں کام کررہا ہے، اس لیے ’’اسلامیہ‘‘ کا لفظ بڑھادیا گیا۔ اگر چہ ادارہ ابتداء ہی سے خصائص کے اعتبار سے بین الاقوامی یونیورسٹی کی حیثیت رکھتا تھا، لیکن آپ نے تواضعاً یہ نام اختیار کیا، اور جب ادارے نے عالمی حیثیت اختیار کی اور بین الاقوامی جامعات اور اداروں سے تعامل شروع ہوا تو بیس سال بعد مجبوراً نیا نام ’’جامعۃ العلوم الاسلامیۃ‘‘ رکھا گیا، جو اَب تک برقرار ہے۔(۲۶)
نصابِ تعلیم کے بارے میں حضرت بنوری رحمۃ اللہ علیہ کا نظریہ
حضرت بنوری رحمۃ اللہ علیہ دینی علوم کی تدریس اور مدارس کے قیام کو صرف درسِ نظامی کی تدریس کے تناظر میں نہیں دیکھتے تھے، بلکہ اسلامی معاشرے کی تشکیل، افرادِ معاشرے کی مکمل دینی تربیت کے تناظر میں دیکھتے تھے، اس لیے نصابِ تعلیم کے بارے میں آپ کا نظریہ جامعیت،تخصص اورتقسیم کے اصول پر مبنی تھا،اس لیے آپ نے حسب ذیل نقاط پر مشتمل نصاب تجویز کیا تھا:
۱:-مختصر کورسز
ناظرہ قرآن، تجوید اور ابتدائی دینی معلومات پر مشتمل مختصر نصاب، جو بچے مختصر مدت ( سکولز کی سالانہ چھٹیوں) میں پڑھیں۔
۲:-مختصر سہ سالہ نصاب
ایک مختصرنصاب ان لوگوں کو سامنے رکھ کر وضع کیا جائے، جو دینی علوم کا شغف رکھتے ہوں، لیکن دنیاوی مصروفیات، کاروبار یا ملازمت کی وجہ سے مکمل درسِ نظامی نہ پڑھ سکتے ہوں، ایسے افراد کے لیے قرآن وحدیث اور فقہ کے منتخبات اور فنون میں سے ہر فن کی ایک ابتدائی کتاب پر مشتمل نصاب وضع کیاجائے جو تین سال کے عرصہ میں پڑھایا جاسکے۔
۳:-متوسط پانچ سالہ نصاب
پانچ سالہ نصاب بھی ان لوگوں کو مدِنظر رکھ کر وضع کیا جائے، جوکم فرصتی یا کسی وجہ سے مکمل درسِ نظامی نہ پڑھ سکیں۔ غیر ملکی طلبہ کے لیے جامعہ میں اسی طرح کانصاب مرتب کیا گیا تھا۔
۴:-مکمل درسِ نظامی
عالمِ دین بننے کے لیے رائج الوقت درسِ نظامی جو آٹھ یا نو سال کے عرصہ پرمشتمل ہو اور اس میں تخفیف، تیسیر اور اصلاح وترمیم کے اصول کارفرما ہوں۔ (۲۷)
۵:-تخصصات
درسِ نظامی سے فراغت حاصل کرنے والے علماء وفضلاء کے لیے مختلف علوم میں تخصص کے درجہ کی مہارت حاصل کرنے کے لیے دوسالہ نصاب۔ آپ نے تخصص فی الحدیث، تخصص فی الفقہ الاسلامی اور تخصص فی الدعوۃ والارشاد کا نصاب اسی اصول کے مطابق وضع کیا تھا۔ دیگر کئی علوم میں تخصصات شروع کرنے کا ارادہ تھا۔ (۲۸)
حوالہ جات
۱:- المقریزی، احمد بن علی، متوفی، ۱۸۴۵ھ۔ المواعظ والاعتبار بذکر الخطوط والآثار، (بیروت، دارالکتب العلمیۃ، ۱۴۱۸ھ)جلد:۴، ص:۱۹۹
۲ :- بخاری، محمد بن اسماعیل، صحیح البخاری، کتاب المناقب، مناقب الانصار،باب ہجرۃ النبی صلی اللہ علیہ وسلم وأصحابہ إلی المدینۃ، رقم الحدیث:۳۹۰۵ (ریاض- دارالسلام، ۲۰۰۰ء ) ص: ۳۱۷-۳۱۸
۳ :- الحلبی،علی بن إبراہیم بن أحمد،أبو الفرج، المتوفٰی: ۱۰۴۴ھ، السیرۃ الحلبیۃ= إنسان العیون فی سیرۃ الأمین المأمون (بیروت-دار الکتب العلمیۃ،۱۴۲۷ھ)جلد:۱،ص:۴۶۵
۴ :- الحلبی، السیرۃ الحلبیۃ (بیروت-۱۴۲۷ھ)جلد:۱،ص:۴۶۵
۵ :- بخاری،صحیح البخاری،کتاب التفسیر، سورۃ سبح اسم ربک الاعلی۔رقم الحدیث :۴۹۴۱(ریاض ،دارالسلام۲۰۰۰ء )، ص: ۴۲۶
۶ :- زرقانی،أبوعبداللہ محمد بن عبدالباقی المالکی، متوفی:۱۱۲۲ھ، شرح الزرقانی علی المواھب اللدنیہ بالمنح المحمدیۃ(دارالکتب العلمیۃ۱۹۹۶ء )، ج:۲ ، ص۱۸۶ ۷:- مقریزی،الخطط(بیروت-۱۴۱۸ھ) ج:۲ ، ص: ۳۶۲
۸:- المقریزی، کتاب الخطط ۹:- النحل:۱۲:۱۶
۱۰:- بنوری، محمد یوسف، علامہ، نفحۃ العنبر فی حیاۃ الشیخ انور (کراچی- مجلس علمی،۱۳۸۹ ھ-۱۹۶۹ء ) ، ص:۲۶۶
۱۱:- راقم کو یہ سعات حاصل ہے کہ۱۹۷۷ ء
۱۲:- مختار، ڈاکٹرحبیب اللہ، مولانا، مقدمۃ معارف السنن(کراچی- مجلس الدعوۃ والتحقیق، ت، ندارد)، ج: ۱، ص:۸
۱۳:- (مختار، مقدمۃ معارف السنن(مجلس الدعوۃ والتحقیق)، ج: ۱، ص۹-۱۱
۱۴:- پشاوری، لطف اللہ، مولانا، نقوش زندگی، بینات، بیاد محدث العصر(کراچی۱۹۷۸ء )اشاعت خاص، ص:۳۸
۱۵:- مختار، مقدمۃ معارف السنن(مجلس الدعوۃ والتحقیق)، جلد:۱، ص:۱۱ ۱۶:- ایضاً، جلد:۱، ص:۱۲
۱۷:- ایضاً، ج:۱ ،، ص:۲۱ تا۲۳ ۱۸:- ایضاً، جلد:۱، ص:۲۴
۱۹:- کوہاٹی، محمد طفیل، مقالات امین ازافادات مولانا محمد امین اورکزئی شہید (ہنگو، دارالتحقیق جامعہ یوسفیہ۱۴۴۰ھ) ص:۳۴۲ تا۳۷۶
۲۰:- مولانا محمد امین اورکزئی، خوان بنوری سے خوشہ چینی، ماہنامہ بینات، کراچی(جمادی الاولیٰ، ۱۴۴۰ھ)، ج: ۸۲، شمارہ :۵، صفحات ۴۸تا۵۸ اور (جمادی الثانیۃ۱۴۴۰ھ) شمارہ :۶، صفحات :۴۴تا۵۱
۲۱:- مختار، مقدمہ معارف السنن(مجلس الدعوۃ والتحقیق)، ج: ۱، ص:۱۷
۲۲:- ایضاً، ج: ۱، ص: ۲۰-۲۱ ۲۳:- ایضاً، ج: ۱، ص:۴۲
۲۴:- بنوری، صاحبزادہ محمد، حضرت اباجان کا آخری سفر، ماہنامہ بینات بیاد محدث العصر(کراچی ۱۹۷۸ء ) اشاعت خاص، ص: ۷۱۵
۲۵:- مختار، مقدمہ معارف السنن ۔( مجلس الدعوۃ والتحقیق ۱۹۸۱ء )، ج:۱ ، ص:۱۳
۲۶:- تفصیل کے لیے دیکھئے ،تعارف جامعہ
۲۷:- مفتی احمد الرحمٰن، جامعہ کا دورجدید، بینات بیاد محدث العصر(۱۹۷۸ء )اشاعت خاص، ص: ۲۴۹
۲۸:- مفتی احمد الرحمٰن، جامعہ کا دورجدید، بینات بیاد محدث العصر(۱۹۷۸ء )اشاعت خاص، ص: ۲۴۳-۲۴۴