باسمہ تعالٰی
خالق کائنات نے اپنی قدرت کاملہ سے کئی مخلوقات کو وجود بخشا۔ بعد ازاں ان میں ہر ایک کو رہن سہن اور رزق و روزی کو تلاش کرنے کے طور طریقے بھی سکھلا دیے۔ پھر انسان کو ان تمام مخلوقات میں اشرف بنا دیا۔ انسانی نسل کو بڑھانے کے لیے اسے مرد و عورت میں تقسیم کر دیا۔ اس پر مستزاد یہ کہ ہر ایک کو اپنے احکام و آداب سمجھا دیے۔ تاکہ ان پر عمل پیرا ہو کر دنیوی و اُخروی زندگی سنوار سکے۔ اللہ تعالیٰ نے عورت کی ایک خاص شان رکھی ہے۔ صرف یہی نہیں بلکہ زندگی گزارنے اور سنوارنے کے لیے مختلف احکام بھی بتلائے ہیں، کہ عورت اگر ان پر عمل کرے تو وہ ایک باوقار زندگی گزار سکتی ہے۔ دوسری جانب جہاں بھر میں حقوقِ نسواں کا نعرہ زبان زد ہے۔ مغربی دنیا نے دین اسلام کے بارے میں یہ افواہ پھیلا دی ہے کہ اسلام نے عورت کو حقوق دینے کے بجائے مقید کر دیا ہے۔ حالانکہ دونوں نظریات کے مطالعہ سے یہ امر واضح ہو جاتا ہے کہ اسلام نے ہی عورت کو مکمل حقوق فراہم کیے ہیں۔
اسلام کا نقطہ نظر
اسلام ہی وہ یکتا مذہب ہے جس نے عورت کو حیوانیت جیسی زندگی سے نکال کر عزت و توقیر عطا کی ہے۔ پھر چاہے وہ کسی کی والدہ ہو بیٹی ہو بہن ہو یا بیوی ہو۔ والدہ کے بارے میں نبی کریم صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے فرمایا! جنت ماں کے قدموں تلے ہے۔ مزید یہ کہ اسلام میں والدین کو اف تک کہنے کی اجازت نہیں اگرچہ وہ مشرک کیوں نہ ہوں۔ زمانہ جاہلیت میں لوگ بیٹی کو ایک عیب اور نقص سمجھتے تھے۔ جس کے گھرانے میں معصوم بیٹی جنم لیتی اسے زندہ درگور کر دیا جاتا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے بعد اس ناشائستہ عادت کا سد باب ہوا۔ عورت کو اسلام نے ہی اس ظلمت کدے سے باہر نکالا۔ حضور اقدس صلی اللّٰہ علیہ وسلم سے کسی نے دریافت کیا کہ بیوی کے کیا حقوق ہیں؟ آپ صلی اللّٰہ علیہ و سلم نے فرمایا! جو تو خود کھائے اسے بھی کھلائے، جو خود پہنے اسے بھی پہنا، اور اس کو چہرہ پر بھی نہیں مارنا، اس کو بد صورت یا قبیح و بری بات نہ کہنا، اس سے ناراض ہو کر گھر سے باہر علیحدگی اختیار نہیں کرنی۔ آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد مبارک عورت کے تمام حقوق کو جامع ہے، گویا کہ دریا کو کوزے میں بند کر دیا۔ دین اسلام میں وراثت کا حق جس طرح مردوں کو حاصل ہے، اسی طرح عورت کو بھی حاصل ہے، نکاح و طلاق میں بھی عورت کے حقوق کی خاصی رعایت رکھی گئی ہے کہ اس سے مشورہ کرنا لازم ہے، بیاہ کے بعد نباہ نہ ہو سکے تو اسے عزت و احترام کے ساتھ رخصت کرنا اور عدت کے ایام میں نان و نفقہ دینا خاوند پر لازم ہے۔ اسلام نے مرد و عورت کے جو احکام مقرر کیے ہیں، وہ جسمانی و عملی زندگی کے عین مطابق و موافق ہیں۔ عورت چونکہ کمزور ہوتی ہے، بچوں کی پرورش کرتی ہے اور گھریلو امور انجام دیتی ہے۔ اس لیے اسلام نے اسے گھر اور پردہ میں رہنے کا مکلف بنایا ہے۔ اس کے بر خلاف مرد قوی ہوتا ہے اس لیے نان و نفقہ کا ذمے دار وہی ہے تاکہ وہ محنت مزدوری کر کے اہل و عیال کے اخراجات پورے کرے۔
مغربی افکار
یورپ نے 1326 ھ سے حقوقِ نسواں اور مرد کے دوش بدوش زندگی گزارنے کا نعرہ متعارف کرایا، تاکہ اس کی آڑ میں عورت کو بے حیائی کی جانب دھکیلا جا سکے۔ اسی تحریک کو مزید تقویت دینے کے لیے تحریر المرأہ (قاسم امین) اور المرأہ فی الشرق (مرقس فہمی صلیبی) جیسی کتابیں تصنیف کی گئیں۔ علاوہ ازیں میڈیا کے ذریعے اس تحریک کی تشہیر کرائی گئی۔ ھدی شعراوی نے سب سے پہلے مصر میں اپنا حجاب اٹھایا، اور آزادی عورت کے لیے قدم رکھا۔ واقعہ اس طرح پیش آیا کہ سعد زغلول برطانیہ سے تعلیم حاصل کر کے واپس مصر ایئرپورٹ پر پہنچا تو اس کا استقبال کرنے کے لیے مردوں اور عورتوں کی دو قطاریں ترتیب دی گئیں۔ جب موصوف پہنچا تو اس نے آگے بڑھ کر ھدی شعراوی کا حجاب اٹھایا اور حقوقِ نسواں کی حمایت کی۔بعد ازاں ائیرپورٹ پر موجود تمام خواتین نے اپنے اپنے حجاب اٹھا کر قدموں تلے روند ڈالے۔ اس طرح یہ تحریک زور پکڑتے ہوئے 1370 ھ تک بر صغیر میں بھی آن پہنچی۔
بہر حال! یورپ میں حقوق نسواں اور آزادی عورت جیسی تحریکوں کے باوجود وہاں سب سے قابلِ رحم حالت عورت کی ہے۔ جہاں خاندانی نظام تباہ، زنا کاری اور بوس و کنار بام عروج پر ہیں۔ اس تمام تر آزادی کے باوجود مغرب میں زنا بالجبر کی اخبار و اطلاعات نے ہکا بکا کر دیا ہے۔ اس کے علاوہ گھر کے تمام داخلی و خارجی امور عورت کے ذمے ہیں۔ ہوٹلوں، دکانوں اور تفریح گاہوں پر خواتین کا دور دورہ ہے۔ اس کے علاوہ مرد حضرات کو ان سے محظوظ ہونے اور جی بھر جانے کی صورت میں خیر باد کہنے کی کھلی چھوٹ ہے۔ تعجب خیز بات یہ کہ ان تمام حقائق کے باوجود ہمارا نوجوان مغرب کا دلدادہ ہے۔ ان جیسے خرافات سے مشرقی خواتین بڑی متاثر ہوئی ہیں۔
میری بہنوں! اپنی عزت و آبرو اور عصمت کا خیال کرو۔ مغرب آپ کی عزت و عصمت کو پامال کرنے کے لیے آزادی عورت جیسے جال بچھا رہا ہے۔ دین اسلام ہی آپ کا خیر خواہ ہے۔ لہذا اس کی اطاعت میں زندگی بسر کرنے کا تہیہ کرلیں۔