اصولِ افتاء سے متعلق ایک اہم مسئلہ قضاء اور دیانت کا بھی ہے؛ چنانچہ دسیوں بیسیوں مسائل ایسے ہیں جن کا حکم بیان کرتے ہوئے فقہاء کرام نے قضاء اور دیانت کا فرق ذکر فرمایا ہے کہ قضاء کے لحاظ سے تو اس حادثے کا حل یوں ہوگا اور دیانت کے اعتبار سے اس کا حکم یہ ہوگا۔ اسی سیاق میں بعض عبارات میں قاضی اور مفتی کا بھی ذکر آیا ہے کہ قضاء کا پہلو قاضی اختیار کرے گا اور دیانت کا پہلو اختیار کرنا مفتی کا کام ہے۔
قضاء اور دیانت کا یہ فرق کن کن مسائل اور کونسے ابواب میں جاری ہوتا ہے؟ اوراس کی نوعیت کیاہے؟ اس سے متعلق شیخ محمد بوینو کالن نے ’’کتاب الاصل ‘‘پر اپنے فاضلانہ مقدمہ میں ایک باب قائم فرمایا ہے کہ حضرت امام محمد رحمہ اللہ نے کن ابواب ومسائل میں دیانت اور قضاء کا فرق کیا ہے، اس میں وہ تحریر فرماتے ہیں :
فرّق الشیبانی فی الأصل بین الحکم القضائی والحکم الدینی- الأخلاقی فی مواضیع کثیرۃ مثل الطلاق والإیلاء والعتق والنکاح والقصاص والنذر والرجعۃ والاستفادۃ من المال العام والربح المشتبہ فیہ۔ و أفاد أن القاضی قد یحکم فی بعض الأحوال بحکم معین، لکن الحکم الذی یکون الشخص مسؤولاً عنہ أمام اللّٰہ قد یکون مختلفاً عن الحکم القضائی۔ وفی مثل ہذہ المسائل یستعمل للحکم القضائی عبارۃ ’’فی القضاء‘‘، وللحکم الآخر ’’فیما بینہ و بین اللّٰہ‘‘ ویقصد بقولہ : ’’یُدَیَّنُ‘‘ الذی یستعملہ مع العبارتین السابقتین کلتیہما أن الشخص یوثق بدیانتہ ویقبل قولہ فی تفسیرہ لمقصودہ من کلامہ۔ وفی بعض المواضع یبین أن العقد جائز فی القضاء مع کونہ مکروہاً۔(۱)
ترجمہ: کتاب الاصل میں امام محمدؒ نے کئی ایک مقام مثلا: نکاح، طلاق، ایلاء، عتق، نذر وغیرہ میں قضاء اور دیانت پر مبنی احکامات کے درمیان فرق ذکر کرکے فرمایا ہے: کہ قاضی بسا اوقات کسی ایک متعین حکم پر فیصلہ کرنے کا پابند ہوتا ہے؛ مگر اس مسئلہ میں اللہ کے ساتھ بندے کا جو معاملہ ہے اور جس پر وہ کل بروز قیامت خدا تعالیٰ کے سامنے جواب دہ ہوگا وہ پہلے حکم سے مختلف ہوتا ہے، پہلی قسم مسائل کے لیے امام محمد رحمہ اللہ’’فی القضاء‘‘ اور دوسری قسم احکام کے لیے’’فی مابینہ وبین اللہ‘‘ کی اصطلاح استعمال کرتے ہیں ۔اورجب لفظ ’’یدین‘‘ فرمائے تو اس کامطلب یہ ہوتا ہے کہ اس شخص کی بات کا اعتبار ہوگا اور وہ اپنی بات کا جو مطلب بیان کرے اسے معتبر سمجھ اجائے گا ۔ بعض جگہ فرماتے ہیں کہ یہ معاملہ قضاء اور عدالتی کاروائی کی حد تک درست تصور ہوگا اگرچہ مکروہ ہے۔
یہاں مثال کے طور پر آٹھ ایسے ابواب ذکر کیے گئے ہیں جہاں امام محمد رحمہ اللہ نے قضاء اور دیانت میں فرق فرمایا ہے، وہاں قضاء کا حکم اور ہے اور دیانت پر مبنی حکم اور۔
مختلف مواقف اور ان کا جائزہ
پہلا موقف
بعض لوگوں نے تو اس کا مطلب یہ لیا کہ شریعت کا اصل حکم وہ ہے جو دیانت کے اعتبار سے بتایا جاتا ہے اور جہاں تک قضاء کا پہلو ہے تو وہ محض ایک انتظامی نوعیت کا مسئلہ ہے جس پر قاضیوں کو چلایا جاتا ہے؛ تاکہ ہیرا پھیری کی وجہ سے لوگ ایک دوسرے کے حقوق غصب نہ کرنے لگیں ؛ لیکن ظاہر ہے کہ یہ خیال تو کسی طرح درست نہیں ہے، قضاء کو اس معنیٰ میں انتظامی معاملہ سمجھنا اور اس کی حیثیت اسی میں منحصر کرنا کسی طرح درست نہیں ہے، یہی وجہ ہے کہ مستند فقہاء کرامؒ میں سے کسی کے ہاں ہمیں یہ موقف نہیں ملا۔
دوسرا موقف
بعض حضرات نے اس کی وضاحت یوں فرمائی ہے کہ دونوں شریعت ہی کے احکام ہیں ؛ لیکن دونوں کا دائرہ کار الگ اور میدان مختلف ہیں ؛ چنانچہ قضاء کے پہلو کی رعایت رکھنا قاضی کی ذمہ داری ہے، جو اسی کے ساتھ مخصوص ہے ، مفتی اس پہلو کو اختیار نہیں کرسکتا ہے اور قاضی کا یہی دائرہ کار ہے لہٰذا وہ دیانت کے مطابق فیصلہ کرنے کا مُجاز نہیں ہے، اسی طرح دیانت کے پہلو کا بھی حال ہے کہ یہ پہلو مفتی کے ساتھ مخصوص ہے اور خود مفتی کا میدان عمل بھی یہی ہے، وہ اس سے تجاوز کرکے فیصلہ کرنے کا اختیار مند نہیں ہے۔(۲)
اس بنیاد پر متاخرین فقہاء کرام اور معاصر اہل افتاء حضرات پر یہ اشکال کیا جاتا ہے کہ وہ طلاق وایمان وغیرہ کے مختلف مسائل میں دیانت کی بجائے قضاء کے پہلو پر کیوں فتویٰ دیتے ہیں جب کہ وہ اس کے مجاز ہی نہیں ہیں ،اس نوعیت کی دیگر غلط فہمیاں اور اشکالات بھی جنم لیتے ہیں ۔(۳)
دوسرے موقف کا اصولی جائزہ
جہاں تک اس موقف کے اصولی نوعیت کا سوال ہے تو حقیقت یہ ہے کہ کلی طور پر اس سے اتفاق کرنا مشکل ہے، اس میں درج ِ ذیل تفصیل ہی درست معلوم ہوتی ہے:
الف: اگرکسی مسلمان با اختیار حاکم کی طرف سے ان دونوں منصبوں کی تقسیم کار عمل میں آئی اور انھیں کی طرف سے قاضی کو محض قضاء کے پہلو کے اعتبار سے فیصلہ کرنے کا اختیار دیا گیا اور مفتی کو صرف دیانت کے لحاظ سے مسئلہ بتانے کا پابند بنایا گیا ہو، تب تو اس کی پابندی ضروری ہے اور اس صورت میں قاضی دیانت کے مطابق فیصلہ کرنے او رمفتی قضاء کے مطابق فتویٰ دینے کا مجاز نہیں ہوگا؛ کیونکہ مباح انتطامی امور میں جب کوئی قانون وفیصلہ مصلحت پر مبنی ہو تواس کی پابندی شرعا ضروری ہوتی ہے، نیز چونکہ قاضی کو منصبِ قضاء اسی شرط کے ساتھ سونپ دی گئی ہے؛ اس لیے اس کی رعایت رکھے بغیر وہ شرعاً قاضی ہی متصور نہ ہوگا۔
ب: اگر حاکم کی طرف سے ایسی کوئی تقسیم اور میدان عمل کی تحدید نہ کی گئی ہو، تو اس کا یہ حکم نہیں ہے اور اس صورت میں مفتی صرف دیانت کے پہلو ہی کا پابند نہیں ہوگا۔
سات اصولی نکات
اس سلسلے میں درج ذیل نکات کو سامنے رکھنا ضروری ہے:
۱- قاضی ہو یا مفتی، دونوں بہرحال شرعی حکم کے مطابق کاروائی کرنے کے پابند ہیں ،قاضی شرعی ضوابط کے مطابق فیصلہ کرنے کا ذمہ دار ہے جب کہ مفتی شرعی حکم کے مطابق ہی فتویٰ دے گا۔
۲- چونکہ شرعی حکم صرف وہ نہیں ہے جس کو قضائی احکام کے ذیل میں ذکر کیا جاتاہے اور نہ ہی صرف اس میں منحصر ہے جس کو امور دیانت سے تعبیر کیا جاتا ہے؛ بلکہ دونوں ہی شرعی احکام کے ذیل میں داخل ہیں، لہٰذا اصولی لحا ظ سے دونوں کے مطابق کاروائی کرنا درست ہے۔
۳- تاہم دونوں ہی کی ذمہ داری ہے کہ حکم کی اس ادائیگی میں شرعی مصالح کا بھر پور لحاظ رکھے اور ایک بڑی شرعی مصلحت یہی ہے کہ تہمت اور اس کے مواقع سے اپنے دامن کو بچاتے رہیں اور ظاہر ہے کہ اس بات کی نوبت قضاء کے باب میں زیادہ پیش آتی ہے ،وہاں چونکہ فریقین تنازع ہی کی صورت میں سامنے آتے ہیں ؛ اس لیے وہاں فیصلہ کے عمل میں تھوڑی سی بھی کمزوری سامنے آئے تو مخالف فریق اس کوہوا دے کر تہمت وبدنامی کا ذریعہ بنالیتے ہیں اور اس کی وجہ سے قضاء کا اہم اور بنیادی شعبہ سست رفتار بن جاتا ہے اور لوگوں کا ان پر سے اعتماد کا رشتہ رفتہ رفتہ کمزور ہونے لگ جاتاہے یا کم ازکم ان باتوں کا اندیشہ پیدا ہوتا ہے؛ جب کہ افتاء کے باب میں اس کی نوبت کم آتی ہے۔ قاضی کے بارے میں تویہ بات بالکل واضح ہے کہ وہ صرف ظاہری بات کا مکلف نہیں ہوتا؛ بلکہ مصالح کو مدنظر رکھ کر فیصلہ کرتا ہے، مفتی کے متعلق بھی اہل علم نے اس بات کی تصریح فرمائی ہے۔
’’اشباہ‘‘میں ہے:
’’المفتی إنما یفتی بما یقع عندہ من المصلحۃ کما فی مہر البزازیۃ۔ ویتعین الإفتاء فی الوقف بالأنفع لہ‘‘۔(۴)
ترجمہ: ’’فتاوی بزازیہ‘‘ میں ہے کہ: مفتی مصلحت دینی کے موافق فتوی دینے کاپابند ہے اور وقف کے مسائل میں وقف کے لیے مفید تر حکم پر فتوی دینا ضروری ہے‘‘۔
علامہ خطیب بغدادی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
وَإِذَا رَأَی الْمُفْتِی مِنَ الَمْصَلَحَۃِ عِنْدَمَا تَسْأَلُہُ عَامَّۃٌ أَوْ سُوقَۃٌ أَنْ یُفْتِیَ بِمَا لَہُ فِیہِ تَأَوُّلٌ , وَإِنْ کَانَ لَا یَعْتَقِدُ ذَلِکَ بَلْ لِرَدْعِ السَّائِلِ وَکَفِّہِ فَعَلَ فَقَدْ رُوِیَ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّ رَجُلًا سَأَلَہُ عَنْ تَوْبَۃِ الْقَاتِلِ فَقَالَ: لَا تَوْبَۃَ لَہُ وَسَأَلَہُ آخَرُ فَقَالَ: لَہُ تَوْبَۃٌ ثُمَّ قَالَ: أَمَّا الْأَوَّلُ: فَرَأَیْتُ فِیَ عَیْنَیْہِ إِرَادَۃَ الْقَتْلِ فَمَنَعْتُہُ وَأَمَّا الثَّانِی: فَجَائَ مُسْتَکِینًا وَقَدْ قَتَلَ فَلَمْ أُویِسْہُ۔(۵)
ترجمہ: ’’عوام الناس یا بازاری قسم لوگوں کے سوال کے وقت اگر مفتی مناسب سمجھے تو اپنے نظریہ کے خلاف قابل تاویل حکم جس میں سائل کی مصلحت ہو اس پر فتوی دے سکتا ہے، جیسا کہ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے ایک شخص نے قاتل کے توبہ کے بارے میں سوال کیا، انھوں نے فرمایا کہ قاتل کے لیے توبہ کی کوئی گنجائش نہیں ۔ دوسرے شخص نے بھی یہی سوال کیا تو فرمایا کہ اس کا توبہ مقبول ہے۔ پھر فرمایا: پہلے شخص کے بارے میں مجھے پتہ چلا کہ وہ قتل کا ارادہ رکھتا تھا چنانچہ میں نے اس حکم کے ذریعے اسے اپنے ارادے سے باز رہنے کی کوشش کی اور دوسرا شخص قتل کرکے پشیمانی کی حالت میں آیا تھا میں نے اسے ناامید کرنا مناسب نہ سمجھا۔
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کے اسی واقعے سے استیناس کرتے ہوئے یہی بات امام نووی رحمہ اللہ بھی تحریر فرماتے ہیں :
قَالَ الصَّیْمَرِیّ إِذا رأی الْمُفْتِی الْمصلحَۃ أَن یُفْتِی الْعَامیّ بِمَا فِیہِ تغلیظٌ وَہُوَ مِمَّا لَا یعْتَقد ظَاہرہ وَلہ فِیہِ تَأْوِیل جَازَ ذَلِک زجرا لَہُ کَمَا رُوِیَ عَن ابْن عَبَّاس رَضِی اللّٰہ عَنْہُمَا۔(۶)
ترجمہ:’ ’اگر عام شخص کو مسئلہ بیان کرتے وقت مفتی اپنی رائے کے خلاف سائل کی مصلحت کے موافق قابل تاویل حکم میں شدت سے کام لے تواس کی گنجائش ہے ،جیساکہ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہم سے اس طرح منقول ہے‘‘۔
۴-قضاء اور افتاء کے کاموں میں اس بنیادی فرق کی وجہ سے فقہاء کرام ؒیہ تحریر فرماتے ہیں کہ قاضی ظاہر کا مکلف ہے اور اسی کے مطابق فیصلہ کرنے کا ذمہ دار ہے، یہ چیز جب ضابطے کی حیثیت اختیار کرلے تو اس کے بعد قاضی کے خلاف تہمت یا بے اعتمادی پیدا کرنے کے اسباب کم یاب ہوں گے اور فتویٰ کے باب میں چونکہ ان باتوں کا عام طور پر سامنا نہیں ہوتا؛ اس لیے وہ مستفتی سے تنقیحات بھی کرسکتا ہے، نیت کے متعلق پوچھ گچھ بھی کرسکتا ہے۔
۵- غور کیاجائے تو واضح ہوتا ہے کہ جن مسائل میں قضاء اور دیانت کا فرق کیا گیا ہے، ان میں بیشتر مسائل اور ان کے باہم فروق کا حال یہ ہے کہ ظاہری اور سرسری لحاظ سے مسئلہ کا حکم ایک ہوتا ہے لیکن نیت وغیرہ عناصر کی وجہ سے اس کے حکم میں فرق آجاتا ہے۔
مثال کے طور پر اگر کوئی شخص اپنی بیوی سے کہتاہے کہ: ’’آپ کو طلاق ہے، آپ کو طلاق ہے، آپ کو طلاق ہے‘‘ اب ظاہر کے لحاظ سے دیکھا جائے تو لفظ میں طلاق واقع ہونے کی صلاحیت موجود ہے، کہنے والا بھی طلاق دینے کی لیاقت رکھتا ہے، جس کو طلاق دیا جارہا ہے وہ بھی طلاق دیے جانے کی اہلیت رکھتی ہے اور ایسا کوئی مانع موجود نہیں ہے جو طلاق کے واقع ہونے کو روک لے؛ لہٰذا تینوں طلاقیں واقع ہونی چاہیے؛ لیکن دوسری طرف اس پر غور کیا جائے کہ ایسا لفظ تاکید کے طور پر بھی استعمال ہوسکتا ہے اور اس صورت میں چونکہ یہ لفظ ایک سے زیادہ مرتبہ انشاء طلاق کے لیے استعمال نہیں ہے، لہٰذا دوسری اور تیسری طلاق بھی واقع نہ ہوگی۔ حضرات فقہاء کرام نے بھی اس کا لحاظ رکھا اور فرمایا کہ قضاء کے طور پر اس سے تینوں طلاقیں واقع ہوجائیں گی؛ لیکن اگر دوسری اور تیسری بار کہنے سے متکلم کا مقصود نئی طلاق دینا نہ ہو؛ بلکہ تاکید ہی مطلوب ہو تو اس صورت میں دیانۃ ایک ہی طلاق واقع ہوگی۔
اب اس مسئلہ میں شریعت کا حکم مختلف نہیں ہے؛ بلکہ ایک ہی ہے کہ یا تو تین طلاقیں واقع ہوکر حرمت ِمغلظہ ثابت ہوگی اور اس کے احکام لاگو ہوں گے اور یا ایک ہی طلاق واقع ہوگی جس میں شوہر کو عدت کے اندر اندر رجوع کرنے کا بھی اختیار حاصل ہوگا، اب قاضی ہو یا مفتی ،دونوں شرعی حکم کے مطابق مسئلہ حل کرنے کے پابند ہیں ؛ لیکن بعض شرعی مصالح کی وجہ سے قاضی کو ظاہر کا مکلف ٹھہرایا گیا اور مفتی کو مزید تنقیح کا بھی اختیار دیا گیا۔
لیکن قاضی کی طرح مفتی بہرحال دیانت پر فتویٰ دینے کا پابند نہیں ہے؛ بلکہ در پیش حادثہ میں اصل شرعی حکم دریافت کرنے اور اسی کے مطابق فتویٰ دینے کا ذمہ دار ہے ،وہ کبھی تو دیانت کے پہلو اختیار کرنے کی صورت میں ہوتا ہے؛ جب کہ کبھی قضاء کی جانب کے لحاظ رکھنے میں ہوتاہے، مثال کے طور پر زید آتا ہے اور وہ اپنا واقعہ بتاتا ہے کہ میں نے اپنی مدخول بہا بیوی سے درج بالا الفاظ کہے ہیں اور مفتی کو سابقہ اقرار وغیرہ کسی ذریعہ سے معلوم ہے کہ اس نے کہتے وقت تاکید کی نیت نہیں کی تھی؛ لیکن اب اگر اس سے تنقیح کروائی جائے تو بڑے دعویٰ کے ساتھ یہی کہے گا کہ میں نے محض تاکید ہی کی نیت سے یہ الفاظ کہے تھے تو اس صورت میں مفتی کے لیے یہ درست نہیں ہے کہ ان باتوں کو جاننے کے بعد بھی اس سے تنقیح کروائے کہ دوسری اور تیسری بار کہتے وقت آپ کی نیت کیا تھی؟ بصورتِ دیگر یہ تعاون علی الباطل کی ایک صورت ہوگی۔
مفتی عمیم الاحسان صاحب رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
مَسْأَلَۃ: الْمُفْتِی یُفْتِی بالدیانۃ یَعْنِی أَنہ یحکم علی حسب إِظْہَار الْمُکَلف سَوَاء کَانَ مُوَافقًا للظَّاہِر أَو مُخَالفًا ویختارُ مَا ہُوَ الْأَحْوَطُ فِی حَقہ تنزہًا وتورعًا ویفوض أمرہ إِلَی اللہ فَإِن کَانَ صَادِقًا فِی إِظْہَارہ یُجَازیٰ علی حَسَبِ إِظْہَارہ وَإِن کَانَ کَاذِبًا لَا یَنْفَعہُ حکم الْمُفْتِی وَعِنْدِی عَفا اللّٰہ عنی إِذا علم الْمُفْتِی حَقِیقَۃ الْأَمر لَا یَنْبَغِی لَہُ أَن یکْتب للسَّائِل لِئَلَّا یکون معینا علی الْبَاطِل وَأَن کتب لَا یکْتب علی مَا یُعلمہُ بل علی مَا فِی السُّؤَال إِلَّا أَن یَقُول إِن کَانَ کَذَا فَحکمہ کَذَا وَأما القَاضِی فَیجب عَلَیْہِ الحکم بِظَاہِر حَال الْمُکَلف وَیلْزم بِمَا ثَبت عِنْدہ بِالإِقْرَارِ وَالشَّہَادَۃ۔(۷)
ترجمہ :’’مفتی دیانت والے پہلو پر فتوی دینے کا پابند ہے، یعنی وہ سائل کے سوال کے مطابق جواب دینے کا پابند ہے خواہ اس کی بات ظاہر کے موافق ہو یامخالف، نیز وہ سائل کے حق میں احتیاط والے پہلو کو اختیار کرکے باقی معاملہ اللہ کے سپردکرے؛ چنانچہ اگرواقعتا وہ سچاہوتواس کے مطابق اسے بدلہ ملے گاورنہ غلط بیانی کااسے کچھ فائدہ نہ ہوگا۔میری رائے یہ ہے کہ جب مفتی کواصل صورت حال معلوم ہو تو پھر خلاف واقعہ سوال کے مطابق جواب لکھنے سے گریز کرے؛ تاکہ اس کے ساتھ گناہ کے کام میں مددگار شمار نہ ہو، اگر سوال میں ذکر کردہ تفصیل کے مطابق جواب لکھنا ضروری ہو تو پھر یہ بھی ساتھ لکھے کہ اگر واقعتا بات اسی طرح ہو، تو جواب یہ ہوگا؛ البتہ قاضی کو اقرار یا شہادت سے جو معاملہ ظاہرا معلوم ہو وہ اس کے مطابق فیصلہ کرنے کا پابند ہے‘‘۔
قضاء کے باب میں تو اس بات کی سیکڑوں مثالیں ہیں جہاں فریقین کی ظاہری باتوں پر آنکھیں بند کرکے اعتماد نہیں کیاگیا؛ بلکہ دیگر قرائن واحوال کی بنیاد پر حقیقت تک رسائی حاصل کرنے کی کوشش کی گئی اور اسی کے مطابق فیصلہ کیا گیا؛ لیکن اگر سلف صالحین کے فتاویٰ پر نظر کی جائے تو اس سے اس بات کا ثبوت بہم پہنچتا ہے کہ مفتی بھی ہر جگہ صرف ظاہری بات کے جواب دینے کا پابند نہیں ہے؛ بلکہ وہ بھی موقع و محل وغیرہ قرائن کو دیکھ کر اس کا لحاظ رکھ سکتا ہے اور اگر اس کو سائل یا سوال کی غلطی معلوم ہوجائے اور سمجھتا ہے کہ محض سائل کی بات پر جواب کی بنیاد رکھنا شرعاً غلط فہمیوں یا دیگر شرعی مفاسد کا پیش خیمہ ثابت ہوسکتا ہے تو اس پر ضروری نہیں ہے کہ صرف مستفتی کی بات اور اس کی نیت کے مطابق جواب دیدے؛ بلکہ شرعی مصالح کا لحاظ رکھ کر جواب دے سکتا ہے۔
۶- چھٹی ضروری بات یہ ہے کہ شرعی احکام کا قضائی پہلو بالکل ناقابلِ التفات نہیں ہے؛ بلکہ جیسا کہ پہلے درج کیا گیا ہے کہ یہ بھی شرعی حکم ہے اور اس کی اہمیت وافادیت سے بھی انکار نہیں ہے ، اب موجودہ حالت میں جب ایسے قاضیوں کا وجود ہی ختم ہوگیا جو محض شریعت ہی کو بنیاد بناکر فیصلہ کرتے ہوں تو اس حالت میں بھی اگر مفتی کو دیانتی پہلو پر فتویٰ دینے ہی کا پابند بنایا جائے تو دوسرا پہلو بالکل ترک ہوجائے گا؛ حالانکہ اس پہلو کے ساتھ بھی متعدد شرعی مصالح متعلق ہیں جن کا بالکل اعتبار نہ کرنا کسی طرح قرینِ مصلحت نہیں ہے۔ اس سے بظاہر یہ خیال ہوتا ہے کہ نظام قضاء سے محرومی کے بعد اب منصب ِ افتاء کی ذمہ داریوں میں مزید اضافہ ہوا ۔
۷- قضائی اور دیانتی احکام کے درمیان ایک بنیادی فرق یہ ہے کہ قضاء میں ظاہر حال کا اعتبار ہوتا ہے جب کہ دیانتی امور میں صاحب واقعہ کی بات اور اس کی توضیح وتقیید کا اعتبار کیا جاتا ہے اور اس بات میں کسی عقل مند کو تردد نہیں ہے کہ بحالتِ موجودہ دیانت کا معیار گرتے گرتے بہت ہی پست ہوچکا ہے، اخلاقی پستی اور روحانی کمزوریوں کی وجہ سے سچ اور جھوٹ کے درمیان اب وہ فاصلے بالکل نہ رہے جو کبھی تھے؛ اس لیے بحالتِ موجودہ ہرحال میں دیانتی امور پر کار بند رہنے کی صورت میں اسی بات کا خطرہ ہے جو مفتی عمیم الاحسان صاحب رحمہ اللہ کے حوالہ سے پہلے ذکر ہوچکا ہے کہ بہر صورت اس جمود کی وجہ سے اندیشہ ہے کہ ہمارے بہت سے فتاویٰ تعاون علی المعصیت کے زمرے میں نہ آجائیں ۔
چنداشکالات اور ان کا ازالہ
اس تحقیق پر یہ اشکال ہوسکتا ہے کہ متعدد فقہائے کرام نے اس بات کی صراحت فرمائی ہے کہ مفتی دیانت کے مطابق ہی فتویٰ دے گا اور قضائی پہلو کا لحاظ رکھ کر فتویٰ دینا اس کے لیے درست نہیں ہے، چنانچہ ’’بحر‘‘ میں ’’فتاویٰ بزازیہ‘‘سے نقل کیا گیا ہے:
وفی البزازیۃ من کتاب الإیمان قبیل الثالث والعشرین المفتی یفتی بالدیانۃ والقاضی یقضی بالظاہر إلی أن قال دل أن الجاہل لا یمکنہ القضاء بالفتوی أیضًا فلا بد من کون القاضی الحاکم فی الدماء والفروج عالمًا دینا کالکبریت الأحمر وأین الکبریت الأحمر وأین الدین والعلم اہـ۔(۸)
ترجمہ: ’’فتاوی بزازیہ میں ہے کہ مفتی دیانت والے پہلو پر فتوی دے اور قاضی ظاہر حال کے مطابق فیصلہ کرے۔ نیز فرماتے ہیں کہ جاہل قاضی فتوی دیکھ کر بھی فیصلہ کرنے کی استطاعت نہیں رکھتا اور قصاص یا نکاح کے مسائل میں آج کل کے ججوں کے لیے علم دین کی شرط ٹھہرانا، یہ ناممکن ہے‘‘۔
’’درمختار‘‘ میں بھی یہی عبارت بزازیہ کے حوالہ سے نقل کی گئی ہے(۹)۔ اور ان ہی جیسی عبارات سے ان اہل علم حضرات نے استدلال فرمایا ہے جو یہ سمجھتے ہیں کہ دیانت اور قضاء دو مختلف ابواب ہیں جن میں سے پہلا باب مفتی کے ساتھ جب کہ دوسرے قاضی کے ساتھ مخصوص ہے۔
اس کا جواب یہ ہے کہ ان عبارات میں جو بات ذکر کی گئی ہے وہ کسی مستقل ضابطہ کے طور پر نہیں ہے کہ یہی ضابطہ ہے؛ بلکہ ایک جزوی مسئلہ کے ضمن میں یہ بات آئی ہے؛ بلکہ حقیقت یہ معلوم ہوتی ہے کہ بحر اور در مختار میں بزازیہ کے حوالہ سے جو عبارت ذکر کی گئی ہے وہ وہاں موجود ہی نہیں ہے چنانچہ کافی تلاش کرنے کے باوجود بعینہٖ یہ عبارت وہاں نہ مل سکی، بحر میں بزازیہ کے جس کتاب وفصل کا حوالہ دیا گیا ہے، وہاں بھی اس عبارت کو تلاش کیا گیا؛ لیکن وہاں بھی ایسی کوئی عبارت نہیں ملی؛ بلکہ ان حضرات نے علامہ بزازی رحمہ اللہ کی بات کی روایت بالمعنیٰ کرکے یہ عبارت ذکر فرمائی ہے، بزازیہ کی اصل عبارت یہ ہے:
کل أمراۃ یتزوجہا فکذا ونوی امرأۃ من بلد کذا لا یصدق فی ظاہر الروایۃ وذکر الخصافُ أنہ یصدق وہذا بناء علی جواز تخصیص العام بالنیۃ فالخصاف جوزہ وفی الظاہر لا وعلی ہذا أخذ منہ درہماً وحلفہ علی أنہ ما أخذ منہ شیئاً ونوی الدنانیر فالخصاف جوزہ و الظاہر خلافہ والفتوی علی الظاہر۔ وإذا أخذ بقول الخصاف فیما إذا أوقع فی ید الظلمۃ لا بأس بہ وقد ذکروا عن السلف أن الیمین علی نیۃ الحالف إن کان مظلوماً وعلی نیۃ المستحلف إن کان الحالف ظالماً وفی الدیانۃ یصدق فی الأحوال کلہا بلا خلاف ومعناہ أن المفتی یفتیہ أنک غیر حانث فی الیمین بہذہ النیۃ لکن القاضی یحکم بالحنث ولا یصدقہ کما إذا استفتی فیما إذا استقرض من رجل وأوفاہ ہل برء یفتی بالبراء ۃ لکن إذا سمعہ القاضی یقضی بالمال إلا أن یبرہن علی الإیفاء۔(۱۰)
ترجمہ: اگرکوئی شخص کہے کہ’’جس عورت سے میں نکاح کروں اسے طلاق‘‘ اور ان الفاظ سے کسی خاص شہر کی عورت مراد لے توظاہر الروایۃ کے مطابق اس کی بات نہ مانی جائے گی؛ جب کہ امام خصاف رحمہ اللہ کے نزدیک اس کی بات مانی جائے گی۔ یہ مسئلہ دراصل ’’عام کو نیت کے ذریعے خاص بنانا‘‘ اس قاعدہ پر متفرع ہے جو امام خصاف کے نزدیک درست اور ظاہر الروایۃ کے مطابق درست نہیں ہے۔ اسی طرح اگر کوئی دوسرے سے درہم چرائے اور قسم کھائے کہ ’’میں نے کچھ نہیں چرایا‘‘ اور دل میں مراد دینار ہو تو اس مسئلہ میں بھی اس کی اس نیت کا امام خصاف کے نزدیک اعتبار ہوگا ظاہر الروایۃ کے مطابق نہیں ، اس مسئلہ میں فتوی اگرچہ ظاہر الروایۃ پر ہے تاہم اگر کوئی ظالموں کے ہاتھ پھنس جائے اور امام خصاف کے قول پر عمل کرے تو اس کی گنجائش ہے۔ فقہاء جو یہ فرماتے ہیں کہ اگر کوئی مظلوم ہو تو اس قسم مسائل میں اس کی نیت کا اعتبار ہوگا ورنہ نہیں (یہ دراصل عدالتی کاروائی کے لیے ہے ) اوردیانۃ ہرحال میں اس کی تصدیق کی جائے گی، مفتی اسے حانث نہ ہونے کافتوی دے گا؛ البتہ قاضی حانث ہونے کا فیصلہ کرنے کا پابند ہے اور نیت کے معاملہ میں خلاف ظاہر بات کی وہ تصدیق نہیں کرے گا۔ مثلا کوئی شخص سوال کرے کہ قرض لے کر دوبارہ ادا کرنے سے ذمہ فارغ ہوتا ہے؟ تو مفتی جواب دے گا کہ ضرور؛ مگر جب قاضی کو اس طرح معاملہ پیش ہو جائے تو وہ ادا کرنے پر گواہ پیش کیے بغیر اسے قرض ادا کرنے کا پابند بنائے گا اور محض اس کی بات کہ میں نے ادا کیا ہے اس کی تصدیق نہیں کرے گا۔
اس عبارت میں تعلیق طلاق کے دو مسئلے ذکر کیے گئے ہیں ،دونوں مسائل کے مرکزی الفاظ میں ظاہری لحاظ سے عموم پایا جاتا ہے؛ لیکن متکلم دعویٰ کرتا ہے کہ میں نے اس سے ایک خاص چیز مراد لی تھی، عموم مقصود نہیں تھی تو کیا اس کی بات کا اعتبار کیا جائے گا یا نہیں؟ اس کے متعلق امام خصاف رحمہ اللہ کا ظاہر الروایۃ سے اختلاف کا ذکر کیا ہے اور حکم یہ بیان فرمایا ہے کہ دیانت کے لحاظ سے تو بہرحال متکلم کی بات معتبر ہوگی جب کہ قضاء کی رو سے اگر متکلم مظلوم تھا اور مظلومیت کی حالت میں ایسی تاویل کی تو اس کی بات معتبر ہوگی اور ظالم ہونے کی صورت میں اس کا اعتبار نہیں کیا جائے گا۔ پھر دیانت کا معنیٰ بتاتے ہوئے یہ تحریر فرمایاہے کہ اگر یہ شخص مفتی کے پاس آتا ہے تو وہ بہر حال اس کی نیت کا اعتبار کرے گا۔
اسی بات کو بحر اور در مختار وغیرہ کتابوں میں ’’المفتی یفتی بالدیانۃ‘‘ کے ساتھ نقل فرمایا ہے، لہٰذا بزازیہ میں کوئی قاعدہ کلیہ نہیں ذکر کیا جارہا کہ مفتی تمام مسائل میں بہرحال صرف دیانت کے مطابق ہی فتویٰ دینے کا پابند ہے۔
ایک تحفظ اور اس کاازالہ
قضاء اور دیانت کے متعلق ابھی تک جو تفصیل درج کی گئی ہے، اس پر بعض حضرات کی جانب سے یہ تحفظ بھی پیش کیا جاتا ہے کہ اس طرح مختلف فتاویٰ میں تعارض پیدا ہوجائے گا؛ چنانچہ ایک دارالافتاء سے دیانت کے مطابق جواب جائے گا اور دوسرے سے قضاء کے پہلو کے مطابق فتویٰ صادر ہوگا، اس کا جواب یہ ہے کہ:
الف: اختلاف بذات خود کوئی مذموم یا ممنوع چیز نہیں ہے ،خاص کر جب اختلاف کرنے والوں کی کسی کوتاہی کا اس میں دخل نہ ہو۔
ب:یہ اختلاف صرف اسی صورت کے ساتھ ہی خاص نہیں ہے؛ بلکہ ایک تو قضاء اور فتویٰ کا اختلاف خود بھی قابل لحاظ ہے اور ساتھ یہ بھی ہے کہ چونکہ دیانت میں مستفتی کی بات کا اعتبار کیا جاتا ہے اور اس کی بات میں تعارض نہ صرف ممکن ہے؛ بلکہ دینی انحطاط کی وجہ سے ہم خود آئے دن اس کا مشاہدہ بھی کرتے ہیں ؛لہٰذا اہلِ افتاء کو بہرحال دیانت پر مقصور رکھنے سے اختلاف بالکلیہ ختم نہیں ہوتا۔
ج: فتویٰ میں تحدید پیدا کرنے کی بجائے اختلاف ختم کرنے کا اصل طریقہ یہ ہے کہ شرعی نظامِ قضاء کو بحال کرنے کی انتھک کوشش شروع کی جائے، حکومت کی طرف سے ایسے قضاۃ کا تقرر ہو جو شرعی تعلیمات کے خلاف قوانین کے مطابق فیصلہ کرنے کے بالکل پابند نہ ہوں ؛ بلکہ دینی بنیادوں پر ہی ان کا انتخاب ہوجایا کرے اور اسی کے مطابق وہ فیصلہ کرنے کے پابند ہوں ، ان کا عزل ونصب اور ترقی وتنزل وغیرہ سارے امور اسی بنیاد پر ہو جایا کریں ۔اگر حکومت اس اہم قضیہ کو حل کرنے کی طرف متوجہ نہیں ہوتی ،تو مختلف طریقوں سے اس کی توجہ اس جانب مبذول کروائی جائے اور تدریج وحکمتِ عملی کے ساتھ مختلف ذرائع اختیار کرکے اس کو اس بات پر مجبور کیا جائے کہ وہ اس اہم مسئلہ کی جانب متوجہ ہو اور اس کے لیے کوئی معقول ومناسب؛ بلکہ مثالی اور قابل تقلید نظم قائم کرے۔ فقہ وفتویٰ کے لحاظ سے بیسیوں مشکلات کاحل اسی میں مضمر ہے۔
ہمارے یہاں آزاد علمی بنیادوں پر دار الافتاؤں کا نظام کسی نعمت سے کم نہیں ہے، موجودہ ملکی حالات میں آئے دن مختلف جگہوں سے اس کے خلاف آوازیں اٹھائی جاتی ہیں ، شورشیں کھڑی کردی جاتی ہیں جن کا اصل ہدف یہ ہوتا ہے کہ اس نظام کو ملیا میٹ کرکے حکومت کے ہاتھ میں اس کی نکیل تھما دی جائے، ایسے حالات میں ’’نظامِ قضاء‘‘ جیسے اہم پہلو کے قیام پرغور کرنے اور مناسب حال انتظام کرنے کی بجائے فتویٰ کے میدان کو محدود کرنے میں اندیشہ ہے کہ کہیں نادانستہ طور پر ان لوگوں کی تائید نہ ہو جائے جو فتویٰ کے موجودہ نظام کو ختم کرنے کے درپے ہیں ۔
٭٭٭٭٭
حواشی
(۱) الأصل للشیبانی ط قطر، مقدمۃ، الفرق بین الحکم الدیانی والقضائی، ص۲۷۴۔
(۲) حضرت علامہ انور شاہ کشمیری رحمہ اللہ نے اپنی دو کتابوں ’’فیض الباری‘‘ اور’’العرف الشذی‘‘ میں اس موضوع پرکافی تفصیل سے روشنی ڈالی ہے، فیض الباری میں اس مسئلہ کو پورے بسط کے ساتھ بیان فرمایا ہے جس کی عبارت تو کافی طویل ہے، تاہم اس سے درج ذیل باتیں مترشح ہوتی ہیں :
الف: قضاء اور دیانت دو الگ الگ ابواب ہیں ۔
ب: قضائی احکام کا تعلق صرف قاضی کے ساتھ ہے جب کہ دیانت پر مبنی احکام صرف مفتی سے متعلق ہیں ، لہٰذا قاضی کے لیے دیانت پر مبنی احکام کے مطابق فیصلے دینا جائز نہیں ہے؛ جبکہ مفتی کے لیے قضائی احکام کے متعلق مسئلہ کی رہنمائی کرنا درست نہیں ہے۔
ج: فقہی کتابوں میں عام طور پر قضائی احکام ہی لکھے ہوتے ہیں ، دیانت پر مبنی احکام مطول کتابوں میں ٹٹولنے کے بعد مل سکتے ہیں ، اس کی ممکنہ وجہ یہ ہے کہ خلافت عثمانیہ کے دور میں بیشتر حنفی علماء ہی کو منصبِ قضاء پر متعین کیا جاتا تھا اور وہ (اجتہادی صلاحیت نہ ہونے کی وجہ سے) فقہی کتابوں کو دیکھ کر ہی فیصلہ کرتے تھے؛ اس لیے اس وقت کے فقہائے کرام نے کتابوں میں قضائی احکام کو لکھنا شروع فرمایا۔ (فیض الباری، الفرق بین الدیانۃ والقضاء،ج۱، ص۲۷۱۔ العرف الشذی، ابواب الطلاق، باب ما جاء فی الرجل یطلق امرأتہ ألبتۃ، ج۲، ص۴۷۱)۔
اصول افتاء سے متعلق ایک ضروری تنبیہ: یہاں اس بات کی وضاحت ضروری معلوم ہوتی ہے کہ افتاء کے باب میں خاص انہیں کتابوں پر اعتماد کرنا ضروری ہے جو فقہی بنیادوں پر لکھی گئی ہوں ، شروحِ حدیث وغیرہ موضوعات کی کتابوں سے استفادہ تو بہر حال مفید ہے؛ لیکن وہاں کی ہر بات اور ہر بحث کو بنیاد بنا کر فتویٰ دینا خلافِ ضابطہ کام ہے ۔ اس کی ایک بنیادی وجہ یہ ہے کہ وہاں شارح/مؤلف اس بات کا التزام نہیں کرتا کہ جو توجیہ/شرح وہ ذکر کرتا ہے ،وہ فقہی نقطہ نظر سے اس حد تک درست ومناسب بھی ہو جس پر فتویٰ دیا جائے۔ اسی طرح کسی شخصیت کی ذاتی تحقیقات اور ذوقی باتوں کو بنیاد بناکر اس کے مطابق فتویٰ دینا بھی اصولی لحاظ سے بالکل غلط ہے۔
(۳) مثال کے طور پر دیکھیے:چند اصولی مباحث، از مولانا عتیق احمد بستوی صاحب،ص۳۳۱۔ماہنامہ بینات،ذو القعدۃ ۱۴۴۲ھ، مضمون مولانا مفتی عبد اللہ ممتاز قاسمی صاحب۔
(۴) الأشباہ والنظائر لابن نجیم، الفنّ الثانی،کتاب القضاء والشہادات والدعاوی،ص:۱۸۹۔
(۵) الفقیہ والمتفقہ للخطیب البغدادی،ج۲، ص:۴۰۷۔
(۶) آداب الفتوی والمفتی والمستفتی،ص:۵۶۔
(۷) قواعد الفقہ للمفتی عمیم الاحسان ،الرسالۃ الخامسۃ، أدب المفتی، ص:۳۴۲۔
(۸) البحر الرائق شرح کنز الدقائق، کتاب القضاء،ج۶، ص:۲۸۸۔
(۹) الدر المختار مع حاشیۃ ابن عابدین، مطلب فی الاجتہاد وشروطہ، ج۵، ص:۳۶۵۔
(۱۰) الفتاوی البزازیۃ، الفصل الثانی والعشرون في الحرف والفعال المتفرقۃ، ج۴، ص:۲۰۔
دارالعلوم ، شمارہ : 11-12، جلد:106، ربيع الثاني – جمادي الاول 1444ھ مطابق نومبر – دسمبر 2022ء