حفاظتِ وقت اور ہمارا معاشرہ

وقت اللہ رب العزت کی ایک ایسی عام نعمت ہے، جو انسانی معاشرہ میں یکساں طور پر امیر، غریب، عالم، جاہل، صغیر، کبیر سب کو ملی ہے، وقت کی مثال تیز دھوپ میں رکھی ہوئی برف کی اس سِل سے دی جاتی ہے کہ جس سے اگر فائدہ اٹھایا جائے تو بہتر ورنہ وہ تو بہر حال پگھلتی ہی جاتی ہے اس وقت مسلم معاشرہ عام طور سے ضیاعِ وقت کی آفت کا شکار ہے، یورپی معاشرہ اپنی تمام تر خامیوں اور کمزوریوں کے باوجود وقت کا قدر داں ہے اور زندگی کو باقاعدہ ایک نظام کے تحت گزار نے کا پابند بنا ہوا ہے ۔ سائنس اور ٹیکنالوجی میں ان کی تر قیوں کا ایک بڑا سبب وقت کی قدر دانی ہی ہے ۔

جو قومیں وقت کی قدر کرنا جانتی ہیں، صحراوٴں کو گلشن بنا دیتی ہیں، وہ فضاوٴں پر قبضہ کر سکتی ہیں وہ عناصر کو مسخر کرسکتی ہیں، وہ پہاڑوں کے جگر پاش پاش کرسکتی ہیں، وہ زمانہ کی زمامِ قیادت سنبھال سکتی ہیں؛ لیکن جو قومیں وقت کو ضائع کر دیتی ہیں، وقت انھیں ضائع کر دیتا ہے، ایسی قومیں غلامی کی زندگی بسر کر نے پر مجبور ہو جاتی ہیں، وہ دین اور دنیا دونوں اعتبار سے خسارے میں رہتی ہیں۔

آ ج ہمارے معاشرہ میں سب سے سستی اور بے قیمت چیز اگر ہے تو وہ وقت ہے، اس کی قدر و قیمت کا ہمیں قطعاً احساس نہیں، یہی وجہ ہے کہ وقت کے لمحات کی قدر نہ کر نے سے منٹوں کا، منٹوں کی قدر نہ کر نے سے گھنٹوں کا، گھنٹوں کی قدر نہ کرنے سے ہفتوں کا، ہفتوں کی قدر نہ کر نے سے مہینوں کا، اور مہینوں کی قدر نہ کر نے سے سالوں اور عمروں کا ضائع کر نا ہمارے لیے بہت آسان بن گیا ہے ۔

ہم لو گ بیٹھکوں، چوپالوں، ہو ٹلوں اور نجی مجلسوں میں وقت گزاری کر تے ہیں اور ہمارا کتنا ہی قیمتی وقت نکتہ چینی، غیبت، بہتان اور بے تحاشا سونے میں ضائع ہو جاتا ہے اور ہمیں اس کا احساس تک نہیں ہو تا سرورِ کائنات حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں:

اِغْتَنِمْ خَمْسًا قَبْلَ خَمْسٍ حَیَاتَکَ قَبْلَ ہَرَمِکَ وَصِحَّتَکَ قَبْلَ سُقْمِکَ وَفَرَاغَکَ قَبْلَ شُغُلِکَ وَشَبَابَکَ قَبْلَ ھَرَمِکَ وَغَناکَ قَبْلَ فَقْرِکْ ( مستدرک حاکم ۴/۳۰۶)

ترجمہ: پانچ چیزوں کوپانچ سے قبل غنیمت سمجھو، زندگی کو مر نے سے پہلے اور صحت کو بیماری سے پہلے اور فراغت کو مشغولیت سے پہلے، اور جوانی کو بڑھاپے سے پہلے، اور مالداری کو فقر سے پہلے۔

اس حدیثِ پاک میں ہر صاحب ِ ایمان کے لیے یہ تعلیم ہے کہ آدمی کی فہم و دانش کا تقاضہ یہ ہے کہ وہ اس فانی زندگی کے اوقات و ادوار کو بہت دھیان اور توجہ کے ساتھ گزارے، زندگی کو مرنے سے پہلے غنیمت سمجھے اور اس بات کا استحضار رکھے کہ کل روزِ قیامت میں اس کی ہرہر چیز کا حساب ہو گا، اس سے ہر چیز کے بارے میں باز پرس ہوگی اور اسے اپنے ہر ہر قول و فعل کا جواب دینا ہے، کراماً کاتبین اس کے قول و فعل کو نوٹ کر رہے ہیں، قیامت کے دن اس کے اعمال نامے کو تمام اوّلین و آخرین کے سامنے پیش کیا جائے گا، یہ وقت بڑی قیمتی دولت ہے، اس سے جو فائدہ حاصل کیا جا سکتا ہے، وہ کر لیا جائے، آج صحت و تندرستی ہے، کل نہ معلوم کس بیماری کا شکار ہونا پڑجائے، آج زندگی ہے، کل منوں مٹی کے نیچے مد فون ہونا ہے، آج فر صت ہے کل نہ معلوم کتنی مشغولیتیں در پیش ہو جائیں ۔

آج جوانی کا سنہرا دور ملا ہوا ہے، کل بڑھا پے میں نہ جانے کن احوال سے سابقہ پڑے اور کیا امراض و عوارض لگ جائیں آج صاحبِ حیثیت ہیں، کل پتہ نہیں کیا حالت ہو جائے؟ اس لیے جو کرنا ہے کرلیا جائے، جو کمانا ہے کمالیا جائے، جو فائدہ اٹھانا ہے اٹھا لیا جائے ورنہ” اَلْوَقْتُ کَالسَّیْفِ اِنْ لَمْ تَقْطَعْہُ لَقَطَعَکَ“، وقت دودھاری تلوار ہے، اگر تم نے اسے نہ کاٹا، وہ تمہیں کاٹ ڈالے گی ارشاد نبوی ہے :

نِعْمَتَانِ مَغْبُوْنٌ فِیْھِمَا کَثِیْرٌ مِّنَ النَّاسِ الصِّحَّةُ وَالْفَرَاغُ (بخاری،۲/۹۴۹ ترمذی ۲/ ۵۶)

ترجمہ: صحت اور فراغت دو ایسی عظیم نعمتیں ہیں، جن کے سلسلہ میں بے شمار لوگ خسارہ میں رہتے ہیں اس لیے بعد میں پچھتانے سے یہ بہتر ہے کہ انسان آج ہی قدر کر لے۔

عمو ماً جن صالح بندوں کے مزاج میں دین داری اور نیکی ہوتی ہے، وہ وقت کے قدر دان ہوتے ہیں اور اپنی آخرت بنانے اور دنیا سنوار نے کی فکر انھیں دامن گیر ہو تی ہے، وہ بیکاری، آوارگی لہو و لعب اور فضولیات میں اپنا وقت ضائع نہیں کر تے، کسی کا برائی سے تذکرہ کر نے ،عیب جوئی کر نے اور بہتان تراشی اور بے کار ولایعنی گفتگو کی انھیں فرصت نہیں ملتی ، ان کی عملی زندگی حدیث نبوی کی عملی تصویر ہو تی ہے :

اِنَّ مِنْ حُسْنِ اِسْلَامِ الْمَرْءِ تَرْکُہ مَالَا یَعْنِیْہِ (ترمذی ۲/ ۵۸)

ترجمہ: بیشک انسان کے اچھا مسلمان ہو نے کی خو بی یہ ہے کہ وہ بے کار اور فضول چیزوں کو چھوڑ دے۔

وقت کی قدر شناسی اور ہمارے اسلاف

ہمارے اسلاف و بز ر گانِ دین کی تابناک سیرت اور پاکیزہ زندگی، اس سلسلہ میں بھی عمل کا داعیہ رکھنے والوں کے لیے بہترین اسوہ ہے کہ ان حضرات نے اپنی حیات ِ فانی کاسفر پوری ہوش مندی اور بیداری کے ساتھ مکمل فرمایا اور زندگی کے تمام مراحل میں وقت کے لمحات و او قات قدردانی اور انضباط کے ساتھ گزارے ۔

چنانچہ امام محمد علیہ الرحمہ کے حالات میں لکھا ہے کہ دن رات کتابیں لکھتے رہتے تھے، ایک ہزار تک ان کی تعداد بیان کی جاتی ہے، اپنی تصنیف کے کمرہ میں کتابوں کے ڈھیر کے درمیان بیٹھے رہتے تھے، مشغولیت اس درجہ تھی کہ کھانے اور کپڑے کا بھی ہو ش نہ تھا ( انوار الباری ) حضرت مولانا عبد الحی فرنگیؒ محلی کی جو مطالعہ گاہ تھی، اس کے تین دروازے تھے، ان کے والد نے تینوں دروازوں پر جو تے رکھوا ئے تھے؛ تاکہ اگر ضرورت کے لیے باہر جانا پڑے تو جو تے کے لیے ایک آدھا منٹ بھی ضائع نہ ہو شیخ جمال الدین قاسمیؒ کے بارے میں لکھا ہے کہ شیخ اپنی زندگی کے ایک ایک لمحہ کی قدر فرماتے تھے، سفر میں ہوں یا حضر میں، گھر میں ہوں یا مسجد میں مسلسل مطالعہ اور تالیف کا کام جاری رکھتے تھے ۔ ( اقوال سلف )

امام رازیؒ کے نزدیک او قات کی اہمیت اس درجہ تھی کہ ان کو یہ افسوس ہو تا تھا کہ کھانے کا وقت کیوں علمی مشاغل سے خالی جاتا ہے؛ چنانچہ فرمایا کر تے تھے :

وَاللہِ انّي أتَأسَّفُ فِي الْفَوَاتِ عَنِ الْاشْتِغَالِ بِالْعِلْمِ فِيْ وَقْتِ الْأکْلِ فَانَّ الْوَقْتَ وَالزَّمَانَ عَزِیْزٌ ․

ترجمہ: خدا کی قسم مجھ کو کھانے کے وقت علمی مشاغل کے چھو ٹ جانے پر افسوس ہوتا ہے؛ کیونکہ وقت متاعِ عزیز ہے ۔

وقت کی قدر دانی نے ان کو منطق و فلسفہ کا ایسا زبر دست امام بنایا کہ دنیا نے ان کی امامت تسلیم کی حافظ ابن حجر عسقلانی ؒ وقت کے بڑے قدر دان تھے، ان کے او قات معمور رہتے تھے، کسی وقت خالی نہ بیٹھتے تھے، تین مشغلوں میں سے کسی نہ کسی میں ضرور مصروف رہتے تھے، مطالعہٴ کتب یا تصنیف و تالیف یا عبادت (بستان المحد ثین )

جب تصنیف و تالیف کے کام میں مشغول ہو تے اور درمیان میں قلم کا نو ک خراب ہو جاتا تو اس کو درست کر نے کے لیے ایک دو منٹ کا جو وقفہ رہتا اس کو بھی ضائع نہ کر تے ، ذکر الٰہی زبان پر جاری رہتا ، اور نوک درست فرماتے اور فرماتے وقت کا اتنا حصہ بھی ضائع نہیں ہو نا چاہیے حضرت اقدس حکیم الامت تھانوی قدس سرہؒ نہایت منتظم المزاج اور اصول و ضوابط کے پابند تھے ، وقت کے لمحات ضائع نہیں ہو نے دیتے تھے کھانے ،پینے، سونے ، جاگنے ، اٹھنے، بیٹھنے غرض یہ کہ ہر چیز کا ایک نظام الاوقات متعین تھا اور اس پر سختی سے عمل فرماتے تھے حضرت خواجہ عزیز الحسن مجذوب رحمة اللہ علیہ آپ کی سوانح میں لکھتے ہیں :

” آپ کی ایک بہت ہی نمایاں خصو صیت یہ ہے کہ وقت ضائع نہیں فرماتے، آپ کا انضباط اوقات نہایت حیرت انگیز ہے یو ں معلوم ہوتا ہے کہ ایک مشین ہے جو ہر وقت چل رہی ہے کسی وقت بیکار نہیں جو ایسا کثیر المشاغل ہو، اس کو بلا انضباطِ او قات چارہ نہیں اور انضباط او قات تب ہی ہو سکتا ہے ، جب اخلاق و مروت سے مغلوب نہ ہو اور ہر کام اپنے وقت اور مو قع پر کر لے، اوروں کو تو چھو ڑ یے،حضرت شیخ الہند مولانا محمود الحسن دیو بندی ؒ جو آپ کے استاذ تھے، ایک بار مہمان ہو ئے آپ نے راحت کے سب ضروری انتظامات کر کے جب تصنیف کا وقت آیا تو باادب عرض کیا کہ حضرت! میں اس وقت کچھ لکھا کرتا ہوں، اگر اجازت ہو تو کچھ دیر لکھنے کے بعد حاضر ہو جاوٴں، فرمایا ضرور لکھو! میری وجہ سے اپنا حرج ہر گز نہ کرو، گو اس روز آپ کا دل لکھنے میں لگا نہیں؛ لیکن ناغہ نہ ہو نے دیا؛ تاکہ بے برکتی نہ ہو، تھو ڑا سا لکھ کر پھر حاضر خدمت ہو گئے۔ (اشرف السوانح ص/ ۳۰)

حضرت تھانویؒ خود فرمایا کر تے تھے : ” آج ہم لوگ وقت کی قدر نہیں جانتے؛ حالانکہ زندگی کی ہر ہر گھڑی، ہر ہر سیکنڈ اور منٹ اتنا قیمتی ہے کہ ساری دنیا بھی اس کی قیمت نہیں ہو سکتی، مر تے وقت اس کی قدر معلو م ہوگی کہ ہائے ہم سے کتنا بڑا خزانہ فضول برباد ہو گیا، اس وقت آپ تمنا کریں گے کہ کاش ہم کو ایک دو منٹ کی اور مہلت مل جائے ، وقت آنے کے بعد نہ ایک منٹ ادھر ہو سکے گا نہ اُدھر ،غرض وقت بہت قابل قدر چیز ہے؛ لیکن لو گ اس کی قدر نہیں کر تے، فضول باتوں میں ضائع کر دیتے ہیں “۔

ایک بزرگ کہتے ہیں کہ ایک برف فروش سے مجھ کو بہت عبرت ہوئی کہ وہ کہتا جا رہا تھا کہ اے لو گو! مجھ پر رحم کرو میرے پاس ایسا سرمایہ ہے کہ ہر لمحہ تھوڑا تھوڑا ختم ہوتا جارہا ہے، اس طرح کی ہماری بھی حالت ہے کہ ہر لمحہ برف کی طرح تھوڑی تھوڑی عمر ختم ہو جاتی ہے، اس کے گھلنے سے پہلے جلدی بیچنے کی فکر کرو، فراغت کے وقت کو مشغولی سے پہلے غنیمت سمجھو زندگی کو موت سے پہلے غنیمت سمجھو کام کر نا شروع کر دو (تحفة المدارس ص/ ۱۴۹ ج/ ۲)۔۔۔ آخر عمر میں جب حضرت تھانویؒ ضعیف ہو گئے تھے، بعض حضرات وعظ وغیرہ کم کر نے کا مشورہ دیتے کہ بات کر نے میں تعب ہوگا تو فرماتے ” مگر میں سوچتا ہوں وہ لمحاتِ زندگی کس کام کے جو کسی کی خدمت اور نفع رسانی میں صرف نہ ہوں (مأثر حکیم الامت ص/ ۶۶)

حضرت مفتی محمود حسن گنگو ہی ؒ کے یہاں بھی حفاظتِ او قات کا بڑا اہتمام تھا؛ حتی ٰ کہ کھانا کھا تے ہوئے بھی کتابیں پڑھا کر تے تھے، چوبیس گھنٹے کی زندگی مشین کی طرح متحر ک رہتی تھی، کوئی وقت بھی بیکار نہیں جاتا تھا۔

شیخ الحدیث حضرت مولانا زکر یا صاحبؒ ایک عر صہ سے صرف ایک وقت دو پہر کا کھانا کھاتے شام کو کھانا تناول نہیں فرما تے، کہتے کہ میری ایک مشفق ہمشیرہ تھی میں شام کو مطالعہ میں ہوتا تھا، وہ لقمہ میرے منہ میں دیا کرتی تھی، اس طرح مطالعہ کا حر ج نہ ہو تا تھا؛ لیکن جب سے ان کا انتقال ہو گیا اب کوئی میری اتنی ناز برداری کر نے والا نہیں رہا، مجھے اپنی کتابوں کا نقصان گوارہ نہیں؛ اس لیے شام کا کھانا ہی تر ک کر دیا۔

حضرت جی مولانا محمد یو سف صاحبؒ کے حالات میں لکھا ہے کہ بہت ہی کم عمری سے تعلیم کا شوق تھا، عام لڑکوں کی طرح وہ اپنے فرائض سے غافل نہیں رہتے تھے، نہ کھیل کود میں اپنا وقت ضائع کر تے تھے، جب فقہ و حدیث کی تعلیم شروع کی تو اس مبارک علم میں پوری طرح مشغول ہو گئے، دن کا کوئی حصہ ایسا نہ ہو تا جس میں خالی بیٹھتے اور کوئی کتاب ہاتھ میں نہ ہو تی، وہ کسی ایسے کا م کو پسند نہ کرتے تھے، جو تعلیم میں کسی طرح مخل ہو۔ ( اسلاف کی طالب علمانہ زندگی ص/ ۷۵)

احقر نے اپنے مرشد حضرت اقدس مفتی مہربان علی بڑوتی قدس سرہؒ کے یہاں حفظِ اوقات کا خوب اہتمام دیکھا، میرے رفیق مولانا محمداسماعیل صادق صاحب مد ظلہ اپنے ایک مضمو ن میں حضرت کے اس عمل پر روشنی ڈالتے ہوئے لکھتے ہیں ” اگر لوگوں کے او قات فروخت ہوا کر تے تو میں اپنی زمین کا کچھ حصہ فروخت کر کے ان کے او قات خرید لیتا“۔ یہ الفاظ ہیں ماضی قریب کے ایک نامور مصنف ، خالص علمی و تر بیتی شخصیت اور اپنے دور کے انتظامی اُمور کے ماہر سیدی حضرت مفتی مہربان علی بڑوتیؒ کے جنہیں وقت کی بڑی قدر تھی اور اپنے اوقات ایسے انداز سے منضبط کیے تھے کہ کوئی لمحہ ضائع نہ ہو، اسی لیے ۴۳/ سال کی مختصر مدت میں اتنا علمی سرمایہ امت کے حوالہ کر گئے جو بعض حضرات ایک صدی زندہ رہنے کے باوجود نہیں کر پاتے، اور ایسی بے مثال شخصیت تھی کہ جن کی عمر زیادہ نہیں ہوئی؛ لیکن انہوں نے اپنا نظام الاوقات اس طرح سے تیارکیا تھا کہ کوئی منٹ اور سیکنڈ خالی نہ گزر سکے، ہمیں اپنے ان پیش رو سے سبق حاصل کر نا چاہیے اور زیادہ سے زیادہ اپنے اس بیش بہا خزینہ کی قدر کرنی چاہیے۔

حضرت بڑوتی علیہ الرحمہ کو مرض الوفات میں حکیم صاحب نے آرام کے لیے کہا تو فرمایا: ” میں بالکل خالی پڑا رہوں، کچھ بھی نہ کروں یہ تو میرے ذوق سے ہٹ کر ہے، کچھ نہ کچھ کام ہوتا رہے، اسی میں مجھے آرام ملتا ہے ، میرا آرام تو اسی میں ہے کہ میرا ایک منٹ بھی خالی نہ گزرے، میرا ایک ایک منٹ امت کی فکر میں صرف ہو، خالی نہ جائے، اس سے مجھے آرام ملے گا، قیامت میں وقت کے بارے میں سوال کرلیا گیا تو کیا جواب دیں گے ۔ پھر فرمایا یہ دنیا ہی تر قی کا باعث ہے، یہاں رہتے ہوئے آدمی بہت کچھ حاصل کر سکتا ہے، دنیا سے چلے جانے کے بعد وہ ذرہ برابر بھی تر قی نہیں کر سکتا (تذکرئہ مہر بان ص/ ۱۱۲)

عمو ماً ہم اہلِ علم کا یہ مزاج بن چکا ہے کہ اِدھر اُدھر کی فضول باتوں میں لگے رہتے ہیں، کسی کی تنقیص توکسی کی تحقیر ، کسی کی غیبت تو کسی کی عیب جوئی، بلا وجہ پوری دنیا کا تذکرہ کریں گے اور اپنے بارے میں کبھی خیال نہیں ہوتا کہ اپنا وقت خراب کر نے کے ساتھ گناہ کا بوجھ اپنے سر رکھ رہے ہیں، اس سے نہ تو اپنا نفع اور نہ دوسروں کا ، اگر ہم ذرا بھی غور کر کے ایسے اقدامات کریں کہ جس سے خود کا بھی فائدہ ہو اور ملت کے لیے بھی سہولت کی چیز یں فراہم ہو جائیں حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے : خَیْرُ النَّاسِ مَنْ یَنْفَعُ النَّاسَ: بہترین وہ لو گ ہیں جولو گوں کو نفع پہونچائیں، اس حدیثِ مبارک پر عمل اسی وقت ممکن ہے، جب ہم اپنے اوقات کی حفاظت کریں اپنے اندر یہ جذبہ پیدا کرنے کے لیے اسلاف کے واقعات کا مطالعہ کریں، ان کی سوانح اور پُرمشقت تاریخ پر نظر ڈالیں، اس طرز سے اپنے اندر خفتہ صلاحیت کو ہم جگا سکیں گے ۔ (مدارس کا نظام کیسے چلائیں ص/ ۴۴)

ضیاع وقت کا ایک بڑا سبب

ہمارے معاشرے میں نو جوانوں کے قیمتی او قات کے ضیاع کا ایک بڑا سبب موبائل فون بنا ہوا ہے اس کے ذریعہ s.m.s بھیجنے اور اس کے پروگراموں میں وقت گزاری کر نے کا ایک عام مزاج بن گیا، گھنٹوں اس میں ضائع کر دینا، راتوں کو خراب کر نا، ایک عام سی بات ہو گئی ، کبھی اس طرف خیال نہیں جاتا کہ میرا قیمتی وقت ضائع ہو رہا ہے، سچی بات یہ ہے کہ آج کا نو جوان مو بائل کو لے کر ایک مجنونانہ کیفیت کا شکار ہوچکا ہے ، اور اس و بائی مر ض سے مدارس کا ایک بڑا طبقہ بھی محفو ظ نہ رہ سکا ، منتظمین کی جانب سے با وجود سخت پابندی اور کڑی نگرانی کے طلبہ پھر بھی اپنی حر کتوں سے باز نہیں آ تے اور اس مو بائل کے منفی اثرات سے پوری طرح وہ متاثر ہو چکے ہیں، ان دینی طالب علموں کو نہ اپنے دین وایمان کا فکر ہوتا ہے، نہ اپنی دنیوی زندگی کے ضیاع کاکبھی خیال آتا، بس وہ اپنے مستقبل سے آنکھیں بند کر کے مدرسوں کی چہار دیواری میں طالب علمانہ لباس اختیار کر کے خود کو بھی دھو کہ دے رہے ہیں اور اپنے استاذوں و سر پرستوں اور والدین کو بھی اندھیرے میں رکھے ہوئے ہیں، اللہ رب العزت ہی ان کے حال پر رحم فرمائے ، اور ان نادان و ناعاقبت اندیش بچوں کو فکر عطاء فرمائے کہ وہ اپنا مستقبل روشن و تابناک بنانے پر محنت کریں اور اپنے اہلِ خانہ کی اس گاڑھی کمائی کی قدر کریں کہ جو بسیار محنتوں و مشقتوں کے ساتھ کما کر ان بچوں کے ماہانہ صرفہ کا نظم کر تے ہیں باری تعالیٰ انھیں فہمِ سلیم سے نوازے! آمین ۔

شیئر کریں

رائے

فہرست

اپڈیٹ شدہ

اشتراک کریں

سبسکرائب کریں

نئے اپڈیٹس بارے معلومات حاصل کریں۔ اپنا ای میل ایڈریس درج کریں اور سبسکرائب بٹن دبائیں۔ شکریہ

سوشل میڈیا

مشہور مدارس