"۷۸۶” نہ بسم اللہ الرحمن الرحیم ہے نہ اس کا بدل اور قائم مقام بلکہ یہ کاتب کی طرف سے صرف اس بات کی علامت ہے کہ میں نے اس تحریر سے پہلے بسم اللہ پڑھی ہے تم بھی پڑھ لینا۔ اس حد تک اس میں کوئی حرج نہیں نہ یہ شرعاً ممنوع ہے بلکہ قریبی سلف صالحین سے اس کا استعمال ثابت ہے ۔ لہٰذا اسے کلمۂ شرکیہ قرار دینا درست نہیں جیسا کہ بعض حضرات کا خیال ہے ۔
رہی یہ بات کہ علم الاعداد کے اعتبار سے ۷۸۶ بسم اللہ الرحمن الرحیم کے عددبنتے ہیں یا نہیں؟ اس کی تحقیق زیر نظر مضمون سے واضح ہوجائے گی ،صاحبِ تحریر دارالعلوم الاسلامیہ لاہور میں استاذ الحدیث ہیں۔ حضرت مولانا مفتی جمیل احمد تھانوی قدس سرہ کے فرزند ارجمند ہیں، اور انہیں تواریخ ولادت و وفات وغیرہ نکالنے کا بڑا تجربہ حاصل ہے اور اس حوالہ سے وہ معروف ہیں۔۔(ادارہ البلاغ )
آج صبح مسجد میں بعد نماز فجر ایک صاحب نے مولانا۔۔۔۔۔۔۔ صاحب کی ایک ای میل دکھائی ، جس کا عنوان ہے Myth of 786 اور اس کے تحت لکھا ہے :
بسم اللہ الرحمن الرحیم، الامیر المومنین علیہ السلام، ہرے کرشنا۔۔۔
اس کے بعد اس کے عدد اس طرح نکالے ہیں۔۔۔ 787 ، 786 ، 786
اس حساب سے انہوں نے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ بسم اللہ الرحمن الرحیم کے عدد 786 نہیں بلکہ 787 ہیں۔ اور بسم اللہ کی جگہ جو 786 لکھنے کا رواج ہے وہ غلط ہے کیونکہ یہ عدد "الامیر المومنین علیہ السلام "یا "ہرے کرشنا” کے بنتے ہیں۔
مولانا صاحب کو علم الاعداد کے قواعد سے ناواقفیت کی وجہ سے یہ غلطی لگی ہے ۔ مفتی صاحب نے "الرحمن” کے عدد 330 شمار کئے ہیں جبکہ اس کے عدد 329 ہیں ۔ کیونکہ علم الاعداد میں مرسوم کا اعتبار ہوتا ہے مقرؤ کا نہیں ۔ گلبن تاریخ میں قواعد میں لکھا ہے : ”کیونکہ تاریخ میں کتابت کا اعتبار ہے نہ سماع ، وقیاس وتلفظ کا "۔ ص ۔ 5 ۔
نیز آگے لکھتے ہیں "تاریخ میں جتنے حروف لکھے جاتے ہیں اگرچہ غیر ملفوظ ہوں ان کے عدد محسوب ہوتے ہیں۔ جب مدکا عدد لیا جائے تو حرکات ثلاثہ اور جزم وغیرہ نے کیا قصور کیا ہے (اسی طرح کھڑے زبر، کھڑی زیر ، اور الٹے پیش کو سمجھو) اسی بنا پر حرف مدغم و مشدد مثلاً نبیّ، وصیّ، فرّخ، وخرّم میں صرف ایک "ی” اور ایک "ر” کے عدد لئے جاتے ہیں پس الف ممدودہ کا ایک ہی عدد ہوگا ”ص 6 ۔
معلوم ہوا کہ حرکات خواہ زبر ، زیر ، پیش ہوں ، یا کھڑا زبر، کھڑی زیر ، الٹا پیش ہوں ۔ ان کے اعداد شمار نہیں ہوتے۔ اسی طرح حرف مشدد ومدغم میں ایک ہی حرف شمار کیا جاتا ہے ۔ چنانچہ رحمان کو اگر الف کے ساتھ لکھیں تو اس کے عدد 299 ہوں گے اور اگر بغیر الف کے اس طرح لکھیں "رحمن” تو اس کے عدد 298 ہوں گے جیسے لفظ مولانا کو اگر واؤ سے لکھیں یعنی "مولانا” تو اس کے عدد 128 ہوں گے اور اگر یاء کے ساتھ لکھیں مثلاً "مولینا” تو اس کے عدد 137 ہوں گے ۔
مولانا صاحب نے خود لفظ امیر المؤمنین میں اس قاعدے کا اعتبار کیا ہے کہ اعتبار مرسوم کا ہے مقرؤ کا نہیں کیونکہ المؤمنین میں ہمزہ پڑھا جاتا ہے واؤ لکھا جاتا ہے ۔ اور یہاں انہوں نے خود ہمزہ کا عدد نہیں لیا بلکہ واؤ کے چھ عدد شمار کئے ہیں ۔ کیونکہ ہمزہ کی جو علامت "ئ” لکھی جاتی ہے اس کا کوئی عدد فن تاریخ میں نہیں ہوتا جس حرف کی شکل میں لکھا جائے گا اس کا عدد شمار ہوگا۔ مثلاً بأس ، میں ایک ، مؤمنون، میں چھ نَبِّیْٔ عِبَادِیْ میں دس ، معلوم ہوا کہ بسم اللہ الرحمن الرحیم کے عدد 786 ہی ہیں جو شروع سے سب حضرات لکھتے چلے آرہے ہیں۔
رہ گئی یہ بات کہ یہ عدد الامیر المؤمنین، یا ہرے کرشنا کے بنتے ہیں اس لئے نہیں لکھنے چاہئیں۔ تو اس بات کی کوئی اہمیت نہیں ہے اس لئے کہ انہی اعداد کے اور بہت سے لفظ بنائے جاسکتے ہیں۔ جیسے۔ شہزادہ سلمہ الرحمن۔ ملک صورت۔ ذبیح اللہ۔ تاج العرفا۔اس لئے کسی کلمہ کے اعداد کا دوسرے کلمہ سے ملنا کوئی بڑی بات نہیں۔ نیز عربی قواعد کے اعتبار سے الامیر المؤمنین کا لفظ ہی غلط ہے کہ مضاف پر الف لام داخل نہیں ہوتا صحیح جملہ امیر المؤمنین علیہ السلام بنتا ہے جس کے عدد 786 نہیں بنتے ۔
نیز فقہ کا قاعدہ ہے المعروف کالمشروط ۔ جس سے معلوم ہوتا ہے کہ عرف کا اعتبار کیا جاتا ہے۔ اور عرف میں بسم اللہ الرحمن الرحیم کے بجائے 786 لکھنے کا رواج ہے، وجہ اس کی یہ ہے کہ بسم اللہ الرحمن الرحیم چونکہ قرآن کریم کی ایک مستقل آیت ہے جس کو بے وضو ہاتھ لگانا اور جس پر غسل واجب ہو اس کے لئے پڑھنا جائز نہیں ہے ۔اس لئے خطوط وغیرہ کے سرنامہ پر بجائے بسم اللہ کے 786 لکھ دیتے ہیں تاکہ بسم اللہ کی بے ادبی سے بچا جاسکے۔ اور خط پڑھنے والا ان اعدادکو دیکھ کر سمجھ لے کہ مجھے یہاں بسم اللہ پڑھنی چاہئے۔ اور "کل امرذی بال لم یبدأ ببسم اللہ فھو اقطع و ابتر” کی وعید سے بھی بچا جاسکے۔ ان اعداد کا حکم بسم اللہ کا نہیں کہ بے وضو ہاتھ لگانا جائز نہ ہو یہ اعداد بطور علامت لکھے جاتے ہیں جیسے 12 کا عدد عام طورپر کتابوں میں لکھا ہوا ہوتا ہے جو مشیر ہے "حد ” کی طرف کہ عبارت منقولہ یہاں تک ہے یہ اس کی آخری حد ہے ۔ اسی طرح بعض مصنفین تیرھواں اور چودھواں لکھنے کے بجائے "یج” اور "ید” لکھ دیتے ہیں جو مشیر ہوتا ہے اعدادکی طرف کہ یاء کے دس جیم کے تین، تیرہ ۔اسی طرح یاء کے دس دال کے چار، چودہ ۔پس عرف میں 786 مشیر ہے بسم اللہ کی طرف نہ کہ ہرے کرشنا یا الامیر المؤمنین علیہ السلام کی طرف۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم میں لفظ رحمان کو الف کے ساتھ لکھنا چونکہ رسم عثمانی کے خلاف ہے ۔ اس لئے بجائے الف کے کھڑے زبر سے لکھا جاتا ہے جس کا کوئی عدد نہیں ہوتا ۔
تفسیر مظہری میں ہے "امام بخاری نے اپنی تاریخ میں اور ابن جریر نے بسند ضعیف بیان کیا ہے کہ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کچھ یہودی آئے اور آپ نے ان کے روبرو سورۂ بقرہ پڑھی تو انہوں نے حساب لگا کر جی ہی جی میں کچھ شمار کرکے کہا کہ ہم ایسے دین میں کیونکر داخل ہوسکتے ہیں جس کے رواج کی مدت زیادہ سے زیادہ اکہتر برس ہے ۔کیونکہ الٓمٓ کے کل عدد بحساب ابجد اکہتر (71 ) ہوتے ہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سنا تو مسکرا کر خاموش ہوگئے اس پر یہودیوں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف متوجہ ہوکر کہا کیا اس کے علاوہ کچھ اور بھی آپ پر نازل ہوا ہے ؟ فرمایا ہاں ۔ الٓمٓصٓ۔ اور الٓمٓرٰ۔ یہ سن کر یہود بولے ابو القاسم تم نے ہم کو اشتباہ میں ڈال دیا۔ (کیونکہ الٓمٓصٓ کے عدد 161 اور الٓرٰ 231 اور الٓمٓرٰ کے عدد 271 ہیں) اب ہم حیران اور سخت حیران ہیں کہ کس کو لیں اور کس کوچھوڑیں” (تفسیرالمظہری ج ۱ص ۱۷۔)
اس میں غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ ان یہودیوں نے اعداد حروف کو شمار کرتے وقت نہ تو مد کا کوئی عدد شمار کیا اور نہ ہی کھڑے زبر کا ۔ پس معلوم ہوا کہ بسم اللہ الرحمن الرحیم میں لفظ رحمان بوجہ رسم عثمانی کی مخالفت بغیر الف کھڑے زبر سے لکھاجائے گا اور اس کھڑے زبر کاکوئی عدد شمار نہیں کیا جائے گا اس طرح یہ اعداد 786 ہی بنتے ہیں ۔اور وہی صحیح ہیں۔فافھم ذلک واستقم ۔